Jamiat Seminar

 
حالیہ عدالتی فیصلوں کے تناظر میں درپیش مسائل کا جائزہ
 بموقع تحفظ مدارس کانفرنس بمقام مدنی ہال صدر دفتر جمعیۃ علماءہند، بتاریخ  ۱۶؍ اپریل ۲۰۲۴ ء 
 
آسام او ریوپی میں مدارس کے بارے میں عدالتی فیصلوں کے مدنظر درپیش خدشات اور مدارس کے خلاف جاری سرکاری و میڈیا کی مہم کا تقاضا ہے کہ ارباب مدارس ایک ساتھ بیٹھیں اور سنجیدگی کے ساتھ غور و خوض کریں اور اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی جائے تا کہ مناسب اور ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیا جاسکے ۔ اسی مقصد کے لیے جمعیۃ علماءہند کی دعوت پر مؤقر علمائے کرام و ارباب مدارس یہاں جمع ہوئے ہیں۔ آپ حضرات کا بصد شکریہ کہ آپ نے اس خاکسار کی دعوت کو قبول کیا اور اس اہم اور سنجیدہ موضوع پر تبادلۂ خیال کے لیے جمع ہوئے۔اللہ رب العزت سے دعاء ہے کہ وہ ہم سب کی کاوشوں کو قبول فرمائیں اور دین کے منابع و مراکز کی حفاظت کے کام کی توفیق مرحمت فرمائیں ( آمین )
یوپی مدرسہ بورڈ سے متعلق الہٰ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ 
یوپی مدرسہ بورڈ سے متعلق الہٰ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے 22؍مارچ 2024 کو حیرت انگیز فیصلہ سنایا ۔ اس مقدمہ میں سب سے اہم دعوی ٰانشومن سنگھ راٹھور ایڈوکیٹ کا تھا ، جس نے یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ 2004 کو ختم کرنے اور تمام مدارس کی سرکاری امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا ، بقیہ پانچ مدعیان مختلف مدارس کے اساتذہ و ملازمین تھے جنھوں نے اپنی تقرری اور تنخواہ سے متعلق اپنے مدارس کی مجلس انتظامیہ اور حکومت کے خلاف دعوی ٰدائر کیاتھا ۔
عدالت نے انشومن سنگھ راٹھور کی عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ 2004 کو سرے سے غیرقانونی اور غیر دستوری قرار دیا اور باقی مدعیوں کی عرضیوں کو متعلقہ عدالتوں کو واپس بھیج دیا تاکہ وہ اپنا فیصلہ اس فیصلے کی روشنی میں صادر کریں ۔
انشومن سنگھ راٹھور ( مدعی)کے دعویٰ کی بنیاد یہ تھی کہ یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ نے یوپی کے مدارس میں تعلیم کے لیے جوشرائط ، اسکیم اور ماحول فراہم کیا ہے وہ دستور کی دفعات 14,15اور21کے خلاف ہے ، دستور کی دفعہ 14 اور 21-A کے تحت بنیادی حق کا مطلب یونیورسل کوالٹی ایجوکیشن ہے ، جس میں سیکولر ایجوکیشن شامل ہے ۔
الہٰ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا آپریشنل پارٹ ( عملی حکم نامہ ) کے متن کا ترجمہ 
پیرا:99: مذکورہ بالا بحث کے پیش نظر، ہم سمجھتے ہیں کہ مدرسہ ایکٹ، 2004، سیکولرازم کے اصول کے منافی ہے ، جو کہ ہندوستان کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ ہے، آئین ہند کے آرٹیکل 14، 21 اور 21-A کی خلاف ورزی ہےاور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ایکٹ، 1956 کے سیکشن 22 سے بھی متصادم ہے ۔لہٰذا مدرسہ بورڈ ایکٹ  2004 کو غیر آئینی قرار دیا جاتا ہے۔ مزید، ہم R.T.E کے سیکشن 1(5) کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں کر رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے ہی مدرسہ ایکٹ کو الٹرا وائرس (غیر آئینی) قرار دیا ہے اور ہمیں دونوں فریقوں کے ماہر وکلاء کے ذریعہ بھی مطلع کیا گیا ہے کہ ریاست یو پی میں ویدک پاٹھ شالاؤں کا کوئی وجود نہیں ہے۔
پیرا: 100: چونکہ ریاست یو پی میں بڑی تعداد میں مدارس اور مدارس کے طلبہ ہیں، اس لیے ریاستی حکومت کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ ان مدارس کے طلبہ کو پرائمری ایجوکیشن بورڈ کے تحت تسلیم شدہ باقاعدہ اسکولوں، ہائی اسکولوں اور انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کے تحت تسلیم شدہ اسکولوں میں فوری طورپر داخلہ دلانے کے لیے اقدامات کرے۔ بورڈ آف اسٹیٹ آف یو پی اور ریاستی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ ضرورت کے مطابق کافی تعداد میں اضافی نشستیں وضع کی جائیں اور اگر ضرورت ہو تو کافی تعداد میں نئے اسکول قائم کیے جائیں۔ ریاستی حکومت اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ 6 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کو تسلیم شدہ اداروں میں داخلہ کے بغیر نہ چھوڑا جائے۔
 
نوٹ 
اس فیصلے میں پانچ باتیں کہی گئی ہیں:
 1۔   مدرسہ بورڈ غیر آئینی ہے
2۔    ہم آرٹی ای ایکٹ کی شق 5 کی حیثیت پر کوئی فیصلہ نہیں کررہے ہیں
3۔    کالعدم بورڈ کے مدرسوں کے طلبہ کو تسلیم شدہ اسکولوں میں داخل کرایا جائے
 4۔   اگر ضرورت پڑے تو سرکار اس کے لیے نئے ادارے قائم کرے یا سیٹوں میں اضافہ کرے 
5۔  سرکار 6 سے 14 سال کے بچوں کو تسلیم شدہ اسکولوں میں داخل کرانے کو یقینی بنائے
عدالت نے فیصلہ میں صاف کر دیا ہے کہ ہم آر ٹی ای ایکٹ کی متعلقہ دفعہ کی حیثیت پر کوئی فیصلہ نہیں کر رہے ہیں۔ اس میں آر ٹی ای ایکٹ کی جس شق کا حوالہ دیا گیا ہے ،اس کے تحت مدرسہ اور دھارمک پاٹھ شالاؤں کو مستثنٰی کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس ایکٹ کے تحت کہا گیا ہے کہ 
’’ اس ایکٹ میں شامل کوئی بھی چیز ( حکم نامہ ) مدرسوں، ویدک پاٹھ شالااور ان تعلیمی اداروں پر نافذ نہیں ہو گی جو ابتدائی طور پر مذہبی تعلیم دیتے ہیں ۔‘‘
سپریم کورٹ میں اپیل 
سپریم کورٹ نے جمعہ (5 اپریل) کو الہٰ آباد ہائی کورٹ کے 22 مارچ کے فیصلے پر روک لگا دی جس میں اتر پردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں سپریم کورٹ کی بنچ نے ہائی کورٹ کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے مرکز اور یوپی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔اس نے دلیل دی کہ مدرسہ بورڈ کا مقصد ریگولیٹری ہے اور یہ سیکولرازم کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے،نیز ایکٹ کو ختم کرنے سے طلبہ کو نقصان پہنچے گا۔
سپریم کورٹ نے طلبہ کو منتقل کرنے سے متعلق ہائی کورٹ کی ہدایت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے لاکھوں طلبہ متاثر ہوں گے۔سپریم کورٹ نے ریاست کو جواب دینے کی آخری تاریخ 30 جون مقرر کی اور جولائی کے دوسرے ہفتے تک اس معاملے پر حتمی فیصلہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔سپریم کورٹ میں یوپی سرکار نے مدرسہ بورڈ کے سلسلے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا دفاع کیا ، جب کہ اس نے ہائی کورٹ میں مدرسہ ایکٹ کا دفاع کیاتھا ۔
سپریم کورٹ نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ اگر مفاد عامہ کی عرضی کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مدارس میں زبان کے علاوہ بنیادی مضامین جیسے ریاضی، سائنس، سماجی علوم اور تاریخ کی تعلیم فراہم کی جائے تو اس کی تدبیر کی جاسکتی ہے۔ مدرسہ ایکٹ کو ختم کرنا کوئی حل نہیں ہے، بلکہ ریاست کی جانب سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اس معیار کی تعلیم سے محروم نہ رہیں ۔
’’ریاست اس امر کو یقینی بناسکتی ہے کہ وہ طلبہ جو کسی ادارے میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، خواہ وہ پرائمری، سیکنڈری یا اعلیٰ سطح پر ہوں، انہیں ایک ایسے معیار کی تعلیم فراہم کی جائے جو انہیں ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ایک باوقار وجود کے حصول کا اہل بنائے ۔ کیا اس مقصد کے لیے 2004 میں ریاستی مقننہ کے ذریعہ نافذ کردہ پورے قانون کو ختم کرنے کی ضرورت ہوگی، اس پر سنجیدگی سے غور کیا جانا ضروری ہے۔‘‘
آسام اور یوپی کے مدارس میں فرق 
۱۔ آسام مدرسہ ایکٹ کو خود حکومت آسام کی مقننہ نے رد کیا ہے اور آسام کے مدارس کو اسکول میں تبدیل کرنے کا فیصلہ خود آسام کی حکومت اور مقننہ کا ہے جسے مدارس سے وابستہ طلبہ، اساتذہ اور تنظیموں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
جب کہ یوپی میں مدرسہ بورڈ ایکٹ کو پرائیویٹ لوگوں نے یا کچھ مدارس کے اساتذہ نے چیلنج کیا اور یوپی حکومت کو مدعا علیہ بنایا۔ خود یوپی حکومت یا اسمبلی نے مدرسہ بورڈ کو کینسل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ یوپی حکومت کو مدرسہ ایکٹ کا دفاع کرنا تھا ۔
۲۔ آسام کے متعلقہ مدارس صرف اساتذہ اور اسٹاف کی تنخواہ نہیں پاتے تھے بلکہ یہ مدارس پوری طرح حکومت کے مصارف پر چلتے تھے اور حکومتی اسکول کی طرح ان کی حیثیت حکومتی مدرسوں کی تھی ۔ اس لیے آسام حکومت نے نہ صرف تنخواہیں بند کیں بلکہ مدارس کو اسکول میں بدلنے کا فیصلہ کیا ، گویا پورا مالکانہ حق استعمال کیا ۔جب کہ یوپی میں مدرسہ بورڈ صرف نصاب تعلیم ، امتحان اور ڈگری و سرٹیفکیٹ کے لیے الحاق کرتا ہے اور ملحق مدارس کے اساتذہ اور اسٹاف کو حکومت کی طرف سے گرانٹ دی جاتی ہے ، مدرسوں کی ملکیت اور جائیداد یں ،ان کی مالک یا سوسائٹی کی ہیں ، مدارس کو الحاق کے لیے کلاس روم اور تعمیر کی شرائط پوری کرنی ہوتی ہیں ، لیکن اس کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی گرانٹ یا امداد فراہم نہیں کی جاتی ۔
آزاد دینی مدارس پر اثر 
دینی مدارس کا کردار اور ان کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔آج ملک میں جہاں بھی اسلام اور شعائر اسلام موجود ہیں ، وہ ان ہی دینی مدارس کی وجہ سے ہیں ۔ حقیقت میں دینی مدارس ملت اسلامیہ ہند کا اثاثہ ہیں، جن کی حفاظت اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔
الہٰ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے اور سپریم کورٹ کے تبصرے میں ایک بات جو اہم اور نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ آئین ہند کی دفعہ 21کے تحت بچوں کو یونیورسل تعلیم پانے کا حق ہے ، جس کے بموجب ہی الہٰ آباد ہائی کورٹ نے ان مدارس کے بچوں کو اسکول میں منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی ، نیز سپریم کورٹ نے اسٹے دیتے وقت بھی عرضی گزار کے منشا پر روشنی ڈالتے ہوئےتبصرہ کیا کہ اگر ان کا مقصد ان بچوں کو زبان کے علاوہ بنیادی مضامین جیسے ریاضی، سائنس، سماجی علوم اور تاریخ کی تعلیم فراہم کرنے کو یقینی بنانا ہے تو اس کی تدبیر کی جاسکتی ہے۔ مدرسہ ایکٹ کو ختم کرنا کوئی حل نہیں ہے، بلکہ ریاست کی جانب سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ وہ ہدایت جاری کرے کہ ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو اس معیار کی تعلیم سے محروم نہ رکھا جائے ۔
ان فیصلوں کے بین السطور کوسمجھنے کے بعد یہ کہاجاسکتا ہے کہ گوکہ مدارس ابھی بھی آرٹی ای ایکٹ کی شق (۵) کے تحت مستثنیٰ ہیں ، لیکن جس طرح ’یونیورسل تعلیم ‘کا حوالہ دیا جارہا ہے اور عدالتیں ان باتوں سے اتفاق رکھتی ہیں، ایسی صورت میں دینی مدارس پر ان فیصلوں کے اثرات مرتب ہوں گے اور ان کو 6سے14 سال کے بچوں کے لیے یونیورسل تعلیم کی فراہمی پر مجبور کیا جاسکتا ہے ۔ 
آزاد مدرسوں کو اپنے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
آزاد ( پرائیویٹ) مدارس آرٹی ای ایکٹ کی شق(5) کے تحت مستثنیٰ ہیں، الہٰ آباد ہائی کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں اس استثناء پر کسی بھی طرح کے کلام سے انکار کیا ہے ، ہنوز سپریم کورٹ نے بھی اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے ۔ اس کی روشنی میں آزاد مدارس پر ان فیصلوں کا فوری طور پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔
لیکن جس طرح اس ملک میں آزاددینی مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ان کی تعلیمی حیثیت و اہمیت پر تنقید جارہی ہے اور آئین ہند اور بچوں کے حقوق کا حوالہ دے کر انہیں ختم کرنے کی سازش رچی جارہی ہے ، اس کے مدنظر لانگ ٹرم میں اس کے اثرات مرتب ہونے کا غالب گمان ہے ۔اسی روشنی میں درج ذیل امور پر سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔
۱۔ مدارس میں داخل6تا 14سال کے طلبہ کو اسکول کی تعلیم یقینی بنائیں 
آئین ہند کی دفعہ21-A  میں مذکورہ عمر کے بچوں کے لیے یونیورسل تعلیم دلانے کی ذمہ داری حکومت پر عائد کی گئی ہے۔حکومتیں اس آئین کے تحت اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے مجبور ہیں ، اسی کی روشنی میں آرٹی ای ایکٹ2009 نافذ کیا گیا ۔ دوسری طرف دینی مدارس کے مخالفین اس آئین کا حوالہ دے کر آزاد مدارس پر پابندی کا مطالبہ کررہے ہیں ۔
آئین ہند کی دفعہ 21-A
’’ریاست ایک قانون کے ذریعے 6 سے 14 سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی جس کا تعین ریاست ہی کرے گی۔‘‘
  اس قانون کے تحت تعلیم کو عالمی حق کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، جس کی ذمہ داری حکومت پر عائد کی گئی ہے ۔ حالاں کہ آئین کی دفعہ 30(1)  میں مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو اپنی مرضی کے ادارے چلانے کا حق بھی دیا گیا ہے ۔ لیکن سپریم کورٹ کی مختلف تشریحات میں ان دونوں دفعات میں تطبیق دیتے ہوئے ان دونوں حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے چنانچہ کیرالہ ایجوکیشن بل سے متعلق ایک تبصرہ میں سپریم کورٹ نے یہ کہا کہ :
’’آرٹیکل (30) کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کا حق ہونا چاہئے۔ ایسے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے مضامین پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ تاہم اقلیتی ادارے عام طور پر اس بات کی خواہش کریں گے کہ ان کے بچوں کی پرورش مناسب اور مؤثر طریقے سے کی جائے اور وہ اعلیٰ یونیورسٹی کی تعلیم کے اہل ہوں اور ایسی فکری کامیابیوں سے پوری طرح آراستہ ہو کر دنیا میں جائیں جو انہیں عوامی خدمات، تعلیمی اداروں میںداخلے کے قابل بنا سکیں، جس کے لیے ان کے انتخاب میں لازمی طور پر عام سیکولر تعلیم بھی شامل ہوگی ۔ دوسرے لفظوں میں آرٹیکل 30 ان کی پسند پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ ایسے تعلیمی ادارے قائم کریں جو دونوں مقاصد کو پورا کریں، یعنی ان کے مذہب، زبان یا ثقافت کے تحفظ کا مقصداور اپنے بچوں کو مکمل، اچھی عمومی تعلیم دینے کا مقصد بھی پورا کریں ۔ ‘‘
یہ بات بالکل واضح ہے کہ آئین کے مطابق کسی طرح کی پابندی نہیں ہے اور نہ سپریم کورٹ نے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے ، لیکن جس لہجے اور طرز پر سپریم کورٹ نے مشورہ دیا ہے کہ اقلیت خود اپنے بچوں کو کامیابی سے آراستہ کرنے کے لیے سیکولر تعلیم کو یقینی بنائے گی ، اس کی روشنی میں تحفظاتی تدبیر کے طو ر پر اس گنجائش سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان بچوں کے لیے جن کی عمر6تا 14ہے ، بنیادی عصری تعلیم کی فراہمی کی حتی الوسع کوشش کرنی ہو گی تا کہ وہ دینی تعلیم کے سا تھ عصری تعلیم کے حق سے بھی فیضیاب ہوسکیںلیکن اس کے ساتھ مذہب اور کلچر کی تعلیم کو ہم آہنگ کرنا بھی ضروری ہے ، نیز جب دینی مدارس ہیں تو ان کا اولین مقصد دینی تعلیم کی فراہمی ہی ہو نا چاہیے ۔ اس کے لیے درج ذیل شکلیں اختیار کی جاسکتی ہیں :
(الف) مذکورہ عمر کے جن بچوں کو داخل کیا جائے ، ان کا داخلہ کلاس ایک تا آٹھ کے اعتبار سے لیں ، آٹھ سال کی مدت میں ان کے لیے مذہبی تعلیم ، مثلاً حفظ اورعربی کے دروس بھی کلاس کے اعتبار سے مقرر کریں اور اس کے اعتبار سے ان کی تعلیم کا انتظام کریں ۔
(ب) مذکورہ عمر کے بچوں کو کلاس کے اعتبار سے داخل کریں اور ان کی عصری تعلیم کا اہتمام این آئی اوایس کے اوبی ای  (اوپن بیسک ایجوکیشن) کے نظام کے تحت کریں ۔ اس کے لیے دینی مدارس کے ذمہ داران جمعیۃ علماء ہند سے بھی رابطہ کرسکتے ہیں ۔ جمعیۃ علماء ہند نے حال میں این آئی اوایس سے اس مسئلے پر معاہدہ کیا ہے۔ 
(ج) تیسری شکل یہ ہے کہ دینی مدارس مذکورہ عمر کے جن بچوں کو داخل کرتے ہیں ، ان کا کسی قریب کے اسکول میں بھی داخلہ کرائیں تا کہ وہاں جا کر وہ عصری تعلیم حاصل کرسکیں ۔ خارج اوقات میں ان کو بنیادی مذہبی تعلیم فراہم کی جائے ۔
لانگ ٹرم  منصوبہ 
مذکورہ امور محض عارضی تدابیر ہیں ، لانگ ٹرم میں ہر مدرسے کے ساتھ اسکول کا قیام ضروری ہوگا تا کہ جدید تعلیم کا منظم نظام چلایا جاسکے ۔اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہمارے دینی مدارس آئین کے بنیادی حقوق کے تحت مذہبی تعلیم فراہم کرنے میں آزاد ہوں گے ، نیزطلبہ باضابطہ جدید تعلیم سے بہرہ ور ہو سکیں گے۔ ان صورتوں میں ہمیں دینی تعلیم کی ترجیحات کی بقا کے لیے بھی مستحکم تدابیر اختیار کرنی ہوں گی ۔
ہاسٹل اور عمارت وغیرہ میں چائلڈ رائٹس کی پوری رعایت 
سی پی سی آر ایکٹ، 2005 کے سیکشن 13 (1) (اے) کے تحت، این سی پی سی آر نے 18سال تک کے بچوں کےتعلیمی اداروں کے ہاسٹلز کے لیے ریگولیٹری رہنما خطوط تیار کیے ہیں جن کا مقصد ہاسٹل کے احاطے میں بچوں کی حفاظت اور ان کے حقوق کو یقینی بنانا ہے۔ رہنما خطوط میں بچے کی ضرورت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے خاص طور پر جب بچے  والدین کی دیکھ بھال سے دور ہوں۔ یہ ایکٹ 2018  میں نافذ ہوا ہےجس کے بموجب ایسے ہاسٹلز کو چائلڈ رائٹس کمیشن میں اندراج کرنا بھی ضروری ہوگا ۔ 
اس ایکٹ کے باب (2) میں اندراج کرنے کا طریقہ ، باب (3) میں ہاسٹلز کے لیے ضروری اسٹاف، وارڈن کی تعداد اور طلبہ اور وارڈن میں تناسب ،باب (4)  میں اصول و ضوابط ، رہنے کے لیے ضروری اسباب، طبی امداد ، فائرفائٹنگ، بجلی لائٹس کی درست فٹنگ ، دیواروں کی مرمت ،  دماغی ترقی کے اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ خاص طورپر طلبہ کی رہائش پر توجہ دیتے ہوئے یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ ہر 25 طالب علم پر ایک ہزار اسکوائر فٹ کی ڈومیٹری ہو نی چاہیے ،نیز ہر سات طالب علم پر ایک ٹوائلٹ کا انتظام ہو۔ اس کے باب چھ میں ہاسٹل کے اکاؤنٹ کے علیحدہ آڈٹ کرانے کا بھی تذکرہ ہے۔اس ریگولیٹری ایکٹ کی کاپی موجود ہے ، اہل مدارس کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے اور ان شرائط کی تکمیل کی کوشش کرنی چاہیے ، بالخصوص ظاہری چیزوں پرزیادہ پر توجہ دینے کی ضروری ہے ،ان میں رہائشی کمروں اور  صفائی ستھرائی سے متعلق جو ہدایات ہیں ، ان کی ہر ممکن پابندی کریں ۔
ملکیت کے کاغذات اور تعمیری نقشے کی منظوری 
اس کے تحت درج ذیل امور پر توجہ دینا ضروری ہے :
• 1۔  ملکیت کا مکمل ثبوت 
• 2۔  رجسٹری ،نوٹری ، وقف نامہ 
• 3۔  رجسٹری ذاتی ملکیت یا ادارہ کی ملکیت
• 4۔  رجسٹری مع داخل خارج
• 5۔  بلڈنگ کا منظور کردہ نقشہ ، پینے کا پانی ، بجلی کی سپلائی، فائرفائٹنگ کے لیے محکمہ فائر بریگیڈ سے اجازت وغیرہ کی اپڈیٹ کاپی 
مکمل چیک لسٹ اس طرح  ہے 
زمین کی ملکیت کے کاغذات 
عمارت کی تفصیل 
رجسٹری داخل خارج وغیرہ  
زمین کا کل رقبہ  
نقشہ کی منظوری 
تعمیرشدہ رقبہ 
ملکیت کا مکمل ثبوت 
داخل خارج
رجسٹری ، نوٹری ، وقف نامہ  
پانی کا کنکشن بل 
رجسٹری ذاتی ملکیت 
بجلی کی سپلائی  
فائر این او سی 
پراپرٹی ٹیکس کے کاغذات 
مدرسہ کانظم ونسق 
ٹرسٹ یا سوسائٹی فریم ورک کے تحت کام کرنے والے مدارس ذاتی مداخلتوں سے پاک ہوتے ہیں ۔ یہ فریم ورک شفافیت، احتساب اور ادارے کے مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے ، اس کے تحت مالی معاملات سرگرمیوں اور فیصلہ سازی کے عمل میں شفافیت قائم رہتی ہے۔ ٹرسٹ یا سوسائٹی کے تحت ادارہ کے نظام کو چلانے کے لیے درج ذیل تدایبر اختیار کی جاسکتی ہیں 
 رجسٹرڈ سوسائٹی 
 پبلک ٹرسٹ ڈیڈ
 انڈین ٹرسٹ ایکٹ ڈیڈ
 سیکشن 8  کے تحت کمپنی 
 وقف نامہ 
 12A
 80G
 
حساب میں شفافیت 
حساب میں شفافیت کے لیے آڈٹ کرنا اور بیلنس شیٹ اور بینک اکاؤنٹ ڈیٹیل نہایت ضروری ہے ، ہر مدرسے کے پاس مدرسہ کے نام سے اکاؤنٹ ہو ، پھر سالانہ اخراجات کا آڈٹ کرایا جائے ، پہلے غیر رسمی طور پر اپنے مدارس کا آڈٹ کرائیں اور مشورے کے مطابق ریٹرن فائل کریں ۔ 
سرکاری امداد سے اجتناب 
مدارس کی آزادی اور ان کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ انہیں سرکاری امداد سے دور رکھا جائے۔ہمارے اکابر نے اس سلسلے میں جن خطرات و خدشات کا اظہار کیا تھا ، موجودہ وقت میں ہم عملی طور پران کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔ آسام اور اترپردیش میں جو کچھ ہوا ،ہم اس کی روشنی میں اسے بہتر طور پر محسوس سکتے ہیں ۔ نیز چائلڈ رائٹس قوانین، حساب و کتاب کی شفافیت کے اصولوں پر ہر قیمت کاربند رہنا ہوگا ۔نیز در پیش خطرات کے مدنظر اپنے اداروں میں جدید لازمی تعلیم کے طور پر6تا14 سال کے بچوں کے لیے انگریزی ، حساب ، سائنس کی تعلیم کا انتظام کرنے پر بھی غور کرنا چاہیے ۔اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند دینی مدارس کو ہر ممکن تعاون دینے کو تیار ہے ، ہمیں ہر صورت میں مدارس کی آزادی کو برقرار رکھنا ہے اور دینی مدارس کے فیض کو جاری رکھنے کے لیے مؤثر تدابیر اختیارکرنی ہیں ۔ موجودہ حالات کے تناظر میں باہمی مشاورت اور فکری توازن کے لیے مزید مشوروں و افہام و تفہیم کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے تا کہ ہم جلداز جلد ایک نتیجے پر پہنچ سکیں۔ 
 
فقط والسلام 
 
محمود اسعد مدنی 
صدر جمعیۃ علماء ہند 
 
 

We will not accept any initiative to change the nature of madrasas: Maulana Mahmood Asad Madani

'Protecting Madrasas' Conference Condemns Government Hostility towards madrasa, Advocates for Balanced Approach to Universal Education

New Delhi, April 16 – Against the backdrop of recent rulings of Allahabad High Court affecting the UP Madarsa Board and governmental actions in Assam targeting Islamic Madarsas, Jamiat Ulama-i-Hind convened a crucial conference in New Delhi. The gathering brought together hundreds of vice-chancellors and rectors from influential Islamic Madarsas across Uttar Pradesh.

Presiding over the conference on 'Protection of Madarsas,' Jamiat Ulam-i-Hind President Maulana Mahmood Asa’d Madani underscored the steadfast resistance against any attempts to alter the core identity of Madrasas. Leaders from over 100 prominent Madarsas, including Darul Uloom Deoband, Darul Uloom Waqf Deoband, and Mazahir Uloom, Saharanpur, participated in this significant event held at the Jamiat Ulama-i-Hind's headquarters in New Delhi.

In his presidential address, Maulana Madani highlighted the indispensable role of Madrasas in preserving religious traditions and nurturing spiritual leaders. He emphasized the need for a unified strategy to counter the current adversarial stance of various governmental bodies, while advocating for the preservation of Madrasas' integrity alongside adaptation to contemporary educational standards. He also proposed the establishment of an independent education board akin to ICSE to elevate educational quality.

Various speakers, including Maulana Muhammad Sufian Qasmi, Rector of Darul Uloom Waqf, emphasized financial transparency and the establishment of primary schools alongside Madrasas. They praised Jamiat Ulama-i-Hind's leadership and urged collaborative efforts with institutions like Darul Uloom Deoband to formulate pragmatic solutions.

Maulana Mufti Muhammad Rashid Azmi, Vice Rector of Darul Uloom Deoband, stressed the pivotal role of Madrasas in preserving Islamic teachings, cautioning against reliance on government financial assistance. Members of Darul Uloom Deoband and other esteemed personalities echoed similar sentiments, invoking the historical contributions of religious scholars like Maulana Qasim Nanotawi and Hazrat Sheikh Al Hind in advancing modern education.

After extensive deliberations, the conference unanimously adopted a resolution condemning the hostile behavior of government institutions towards Madarsas and calling for concerted efforts to uphold their dignity and importance.
Furthermore, the formation of a committee to explore the establishment of an independent education board and a permanent committee to oversee Madrasa affairs was announced. Attendees, representing a diverse spectrum of religious scholars, reaffirmed their commitment to safeguarding the autonomy and integrity of Madrasas.

Key suggestions included prioritizing fundamental contemporary education for children aged 6 to 14, adherence to hostel regulations, meticulous documentation of property ownership, and operating under the auspices of a trust or society. Additionally Maulana Rahmtaullah Meer, Maulana Niaz Ahmad Farooqui, Maulana Afzalur Rahman Sheikh Al Hadith Madrasa Ashraf Al Madaris Hardoi, Maulana Shah Abdul Rahim, Rector of Madrasa Riaz Uloom Gureni Jaunpur, and other prominent figures offered their insights. The proceedings were conducted by General Secretary Jamiat Ulama-i-Hind Maulana Hakeemuddin Qasmi.