سپریم کورٹ نے ہلدوانی میں بے دخلی کے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگا دی
جمعیۃ علماء ہند نے متاثرہ رہائشیوں کی طرف سے عرضی داخل کی تھی ۔ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے ہلدوانی متاثرین کو مبارکباد دیتے ہوئے یقین دہانی کی ہے کہ جمعیۃ ان کی مدد میں پیچھے نہیں رہے گی
نئی دہلی ۵ ؍جنوری ۲۰۲۳ء :
سپریم کورٹ نے جمعرات کو ہلدوانی میں پچاس ہزار رہائشیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگا دی ہے ۔ اس سلسلے میں 20 دسمبر 2022 کو ہائی کورٹ نےسات دنوں میں ان کو بے گھر کرنے کا حکم دیا تھا ، جس کے بعد پولس فورس بھی لگادی گئی تھی ۔
آج جسٹس سنجے کشن کول اور ایس اوکا پر مشتمل بنچ نے ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ کے فیصلے کے خلاف دائر خصوصی عرضیوں کی ایک طویل فہرست کی سماعت کرتے ہوئے ریاست اتراکھنڈ اور ریلوے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے یہ حکم دیا۔ اس مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر متاثرہ علاقہ کے رہائشیوں کی طرف سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ منصور علی، سینئر ایڈوکیٹ بالا سبرامنیم، ایڈوکیٹ طیب خان، ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی، ایڈوکیٹ مجیب الدین خان نے پٹیشن دائر کی تھی ۔ اس کے علاوہ کئی اور گروپس نے عرضی داخل کی تھی۔
عدالت نے اس معاملے کو 7 فروری 2023 تک ملتوی کرتے ہوئے ریاست اور ریلوے سے "عملی حل" تلاش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ آپ سات دنوں میں پچاس ہزار لوگوں کو بے گھر نہیں کرسکتے ۔عدالت نے خاص طور پر اس حقیقت پرتشویش ظاہر کی کہ لوگ کئی دہائیوں سے وہاں مقیم ہیں اور لیز اور نیلامی کی خریداری کی بنیاد پر حقوق کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
جسٹس ایس کے کول نے کہا کہ مسئلے کے دو پہلو ہیں، (۱) یہ لوگ لیز کا دعویٰ کرتے ہیں، (۲) وہ کہتے ہیں کہ 1947 کے بعد جو لوگ ہجرت کرگئے اور ان کی زمینیں نیلام ہوئیں، تو ہم نے نیلامی سے حاصل کیا ہے ۔جب یہ لوگ اتنے سالوں سے وہاں رہے ہیں تو ان کی بازآبادکاری ہونی چاہیے۔ وہاں کئی سرکاری ادارے ہیں، وہ کیسے؟ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ سات دنوں میں انہیں فارغ کر سکتے ہیں؟"جسٹس اوکا نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ پچاس سال سے وہاں آباد ہیں۔ آپ نیلامی سے زمین حاصل کرنے والوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کریں گے ، جج نے مزید کہا کہ یہ انسانی معاملہ بھی ہے ۔نیم فوجی دستوں کو ان لوگوں کو ہٹانے کے لیے تعینات نہیں کیا جانا چاہیے۔"سماعت کے دوران بنچ نے پوچھا کہ کیا سرکاری اراضی اور ریلوے کی زمین کے درمیان حد بندی ہوئی ہے؟ بنچ نے یہ بھی پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ پبلک پریمیسس ایکٹ کے تحت کارروائی زیر التوا ہے۔
عرضی میں جمعیۃ علماء ہند اور دیگر اداروں کے وکیلوں کے دلائل
عرضی میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ درخواست گزار غریب لوگ ہیں جو محلہ نئی بستی، ہلدوانی ضلع میں 70 سال سے زیادہ عرصے سے قانونی طور پر مقیم ہیں۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے 4,365 گھروں میں رہنے والے 50,000 سے زیادہ لوگوں کو بے دخل کرنے کا حکم دیا، اس حقیقت کے باوجود کہ پی پی ایکٹ کے تحت کئی معاملات ضلع مجسٹریٹ کے سامنے زیر التوا ہیں۔اس کے علاوہ مقامی رہائشیوں کے نام ہاؤس ٹیکس کے تحت میونسپل ریکارڈ میں درج ہیں اور وہ سالوں سے باقاعدگی سے ہاؤس ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں 5 سرکاری سکول، ایک ہسپتال اور دو اوور ہیڈ واٹر ٹینک ہیں۔ مزید کہا گیا کہ عرضی گزاروں اور ان کے آباء و اجداد ہندوستان کی آزادی کی تاریخ سے بھی پہلے سے یہاں آباد ہیں ، جسے ریاست اور اس کی ایجنسیوں نے تسلیم کیا ہے اور انہیں گیس اور پانی کے کنکشن اور یہاں تک کہ آدھار کارڈ نمبر بھی دیے گئے ہیں۔ ان کے رہائشی پتے قبول کئے گئے ہیں ۔ہم نے غیر قانونی حکم کے خلاف ایک ایس ایل پی بھی دائر کیا ہے جس میں 30 درخواست گزاروں کی اپیلیں PP ایکٹ کے تحت ضلعی عدالت میں زیر التوا ہیں ۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کا بیان
جمعیۃ علماء ہند نے عمران اور دیگر 29 رہائشییوں کی طرف سے عرضی داخل کی تھی، جو انتہائی غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے ہلدوانی متاثرین کو مبارکباد دیتے ہوئے یقین دہانی کی ہے کہ جمعیۃ ان کی مدد میں پیچھے نہیں رہے گی اور پوری قوت سے ان کی طرف سے مقدمہ لڑا جائے گا ۔متاثرین کی راحت رسانی کے لیے جمعیۃ علماء اتراکھنڈ کے اراکین کو خصوصی ہدایت جاری کی گئی ہے ۔ ازیں قبل جمعیۃ علماء ہند کا ایک وفد مولانا حکیم الدین قاسمی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کی قیادت میں ،جن میں مولانا غیور احمد قاسمی، مولانا ابوالحسن سیوانی ، جمعیۃ علماء اتراکھنڈ کے نائب صدر مولانا جلیس قاسمی، سکریٹری عبدالقادرفارمر وغیرہ شامل تھے، نے ہلدوانی کا دورہ کیا تھا ، اسی طرح ریاستی صدر مولانا عارف قاسمی کی قیادت میں ایک وفد نے بھی متاثرہ علاقہ کا دورہ کیا تھا ۔مولانا حکیم الدین قاسمی متاثرین کےساتھ لگاتار رابطے میں ہیں ۔