Save Waqf Properties (یوم تحفظ اوقاف)

 

Download Khutba as PDF in Urdu

Download Khutba as PDF in Hindi

 

خطبہ  

یوم جمعہ  

بتاریخ ۱۸/ رمضان المبارک  ۱۴۴۵ مطابق  ۲۹/مارچ ۲۰۲۴ ء

 بعنوان  ’یوم تحفظ اوقاف ‘

وقف کیا ہے ؟

اپنی جائیداد کوا پنی ملکیت سے نکال کر اسے اپنے لیے صدقۂ جاریہ بنانا اور اللہ کی ملکیت قرار دینا ہی وقف علی اللہ ہے۔ وقف کا سب سے بڑا  انعام یہ ہے کہ وقف کرنے والے کو مرنے کے بعد  اس کاثواب ملتا رہتا ہے ۔اور اس سے بڑی بات  یہ ہے کہ اس نے وقف کرکے اپنی جائیداد اللہ ر ب العزت کو قرض دے دی ہے ۔اس سلسلے میں اللہ رب العزت نے  قرآن کریم میں فرمایا ہے : من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا فيضاعفه له وله أجر كریم۔ (کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے اور وہ اس کے اپنے لیے دوگنا کردے اور اس کے لیے بڑا اجر ہے)

وقف کا اسلامی تصور 

وقف  ایک ایسی عبادت ہےجو مسلمانوں کو معاشرتی اور معاشی زندگی کی قوت و توانائی  عطا کرتی ہے ، اگر مسلمان اس کو اپنی صحیح روح کے ساتھ جاری و ساری رکھ سکیں تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرتی ومعاشی مسائل حل نہ ہو جائیں ۔

 یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نےمالداروں کو ہدایت دی ہے کہ  ان کے مال میں غریبوں کا بھی حق ہے،  یہ حق زکوٰۃ کی شکل میں بھی ہے اور صدقات و خیرات کے روپ میں بھی ، فرمان باری تعالی ٰہے: 

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ-وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ-وَ السَّآىٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِۚ-وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَۚ-وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاۚ-وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ

اصل نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلوبلکہ اصلی نیک وہ ہے جو اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پرایمان لائے اور اللہ کی محبت میں عزیز مال رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اورمسافروں اور سائلوں کو اور (غلام لونڈیوں کی) گردنیں آزاد کرانے میں خرچ کرے اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اوروہ لوگ جو عہد کرکے اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں اور مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت صبرکرنے والے ہیں یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں ۔

 چنانچہ اسلام میں شروع سے لے کر آج تک وقف کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ سب سے پہلے اللہ کے رسول صلی  اللہ علیہ وسلم نے مسجد قبا کے لیے زمین وقف کی۔اس کے بعد  سب سے پہلا وقف خیری نبی اکرم صلی ا للہ علیہ وسلم کے ذریعہ  مدینہ میں سات باغوں کاوقف کرنا ہے، یہ باغ مخیریق نامی ایک یہودی کے تھے جوہجرت سے بتیسویں ماہ کے آغاز میں اس وقت مارا گیا جب وہ غزوہ ٔاحد میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ لڑ رہا تھا۔ اس  نے وصیت کی کہ اگر میں مارا جاؤں تو میرے اموال محمدؐ کے لئے ہوں گے۔ وہ انہیں اللہ کی مرضی سے صرف کریں گے، چنانچہ غزوہ ٔاحد میں جب وہ مارا گیا اور وہ یہودیت پر ہی باقی تھا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مخیریق اچھا یہودی تھا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ساتوں باغوں کو قبضہ میں لیا پھر انہیں صدقہ (یعنی وقف) کر دیا، پھر اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کاوقف ہوا۔حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کو خیبر کی ایک زمین ملی تو انہوں  نے  اس زمین کو وقف کردیا ۔

ایک موقع پر رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے وقف کرنے کی ترغیب دلائی ، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے اس ترغیب پر لبیک کہا ۔حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے ، وہاں رومہ کے کنواں کے علاوہ کوئی میٹھا پانی نہیں تھا، تو آپ  نے فرمایا: کوئی ہے جو بئر رومہ کو خرید کر اپنے ڈول کے ساتھ اس میں مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرے کہ اس کی وجہ سے جنت میں اس کے لئے خیر ہو؟ تو میں نے اپنے اصل مال سے اسے خرید لیا اور اس میں اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرلیا یعنی اسے وقف کر دیا  ( رواہ النسائی والترمذی) ۔

وقف کے مقاصد

دین اسلام میں وقف کے بہت ہی عظیم مقاصد ہیں ۔ بالخصوص انسانیت کی خیر خواہی ، ضرورت مندوں، معذورین اور بیواؤں کی کفالت اس  کی بنیاد ہیں ۔ وقف کرنے   کی درج ذیل شکلوں سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، نیز یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حیات انسانی کے تمام گوشوں اور سماج کے تمام طبقات اور ہر قسم کی ضرورتوں اور حاجتوں کے لیے اوقاف قائم کیے گئے۔ 

۱۔وقف برائے قرآن و حدیث، مساجد وتعلیم ، مدارس و جامعات، اور لائبریریوں کی تعمیر۔  (۲)۔ پانی کی فراہمی کے لیے وقف ، مسلمان پانی کی سبیلیں لگواتے تھے  اور یہ یقین رکھتے تھے کہ اس کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہے گا ۔(۳)۔ غذا کی فراہمی کے لیے وقف  : محتاجوں  ، فقراو مساکین ، مسافر وپردیسی اور طالب علموں کے کھانے کے لیے اوقاف قائم کیے جاتے تھے۔اور مسلمان ایسے اوقاف قائم کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں مقابلہ کرتے تھے ۔(۴)۔ بیواؤں ، یتیموں، معذوروں  اور مطلقہ عورتوں کے لیے وقف (۵) حفظان صحت کے لیے وقف (۶)حاجیوں کے رہنے اور کھانے پینے کے لیے وقف (۶)۔ مقامات مقدسہ کے لیے اوقاف (۷)اولاد، اعزہ و اقارب کے لیے وقف

(۸)سرحدوں کی حفاظت، جہاد اور قیدیوں کو چھڑانے کے لیے وقف (۹)مسافر کے لیے وقف (۱۰) ماحولیات کی حفاظت ، حیوانات اور پرندوں کے لیے وقف (۱۱) شادیوں اور دلہن کے زیورات کے لیے وقف (۱۲) غریب بچوں کے کھیل کود کے میدانوں او رپارکوں کے لیے وقف (۱۳)  دودھ پلانے والی خواتین کے لیے وقف (۱۴) ویران اوقاف کو آباد کرنے او رکار آمد بنانے کے لیے وقف 

ہندستان میں اوقاف کی تاریخ 

 ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی آمد کے بعد اوقاف کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا   اور جہاں جہاں مسلمان آباد ہوئے ، وہاں مختلف دینی  و خیراتی مقاصد کے لئے مسلمانوں نے اپنی جائیدادیں وقف کیں۔ ان اوقاف سے  امت مسلمہ کے پسماندہ افراد اور جماعتوں      کی مدد کرتی تھی ۔ ان کی تعلیم و ترقی کی سبیل نکالتی تھی، لیکن جیسے ہی اس ملک میں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی ۔ اوقاف کی صورتحال ابتر ہونے لگی - انگریزی حکومت نے بہت سے اوقاف ضبط کرلیے اور  بے شمار اوقاف کو اپنی ملکیت میں لے کر ان کی مالی حیثیت کو ختم کر دیا۔ انگریزی حکومت کی اس کارروائی کو دیکھ کر بہت سے لوگوں  نے اوقافی جائیدادوں کو ہڑپ  لیا اور کرایہ دار کے بجائے ان کے مالک  بن بیٹھے  ۔جب  اوقافی جائیدادوں کی بڑے پیمانے پر اس طرح غاصبانہ تباہی و بر بادی ہوئی تو بعض لوگوں نے انگریز ی حکومت سے تحفظ اوقاف کے لئے قانون وقف پاس کرنے کا مطالبہ کیا، چنانچہ سنہ ۱۹۲۳ء میں مسلم وقف ایکٹ نافذ ہوا اور ملک کی آزادی کے بعد سنہ ۱۹۵۴ء میں نیا وقف ایکٹ منظور ہوا۔ کافی ترمیمات کے بعد سنہ ۱۹۹۵ء  میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے سنٹرل وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء منظور کیا اور اس طرح آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد اوقاف کے تعلق سے کئی قوانین پاس ہوئے لیکن ان قوانین سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔

بلکہ جن وقف بورڈوں کے ذریعہ یہ امید کی جارہی تھی کہ وقف جائیدادوں کو تحفظ ملے گا ، ان وقف بورڈوں نے پہلے اوقافی جائیدادوں کے مقاصد کو ختم کیا اور پھر بڑی تعداد میں جائیدادوں کو اونے پونے داموں میں بیچ کر ملت اسلامیہ ہند کی ترقی کے دشمن بن گئے ۔خود مسلمان بھی کثرت سے وقف جائیدادوں کے استحصال میں شامل ہیں۔لگاتار واقف کے منشاء اور وقف کے اغراض و مقاصد کو بے دردی کے ساتھ نظر انداز کیا جا رہا ہے، بڑے بڑے کاروباریوں، فیکٹریوں کے مالکان اور مفاد پرست لوگوں نے وقف کی املاک پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ وہ وقف اراضی جو مسلم بادشاہوں ،حکمرانوں ، نوجوانوں اور اہل ثروت نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود، ان کی تعلیمی ، سماجی اور اقتصادی زندگی کو سدھارنے کے لیے وقف کی تھیں، ان میں سے بہت سارے مقامات پر حکومت نے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرائیں، کئی ایکڑ زمینوں کی حصاربندی کردی ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں دس ہزار وقفی جائیدادوں پر سرکاری اداروں ، متولیوں اور ذاتی اداروں کا قبضہ ہے  ۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے  مطابق اوقاف کی جائیدادوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق  پانچ لاکھ  ہے۔ کرناٹک میں دو لاکھ کروڑ روپے  کے سب سے بڑے گھوٹالے کا واقعہ پیش آیا۔ اس صوبہ میں ۵۴ ہزار ایکڑ وقف کی رجسٹرڈ زمینیں ہیں جن میں سے ۲۷ ہزار ایکڑ زمینیں فروخت کی جا چکی ہیں ۔ وقف بورڈ کے ملازمین نے بعض سیاست دانوں اور زمین مافیا کے ساتھ مل کر یہ لوٹ مچائی۔ مدھیہ پردیش میں ۵۵ ہزار کروڑ کی وقف املاک میں سے ۷۰ فیصد زمینوں پر ناجائز قبضے ہو چکے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ آندھرا پردیش میں  اکتیس ہزار  ایکڑس کی وقف اراضی میں سے  بیس  فیصد پر نا جائز قبضہ ہو چکا ہے۔ 

وقف کی جائیدادوں میں خورد برد کرنے والوں پر وعید

وقف کی املاک کا انتظام اور بندو بست متولی کے ذمہ ہے ، وقف سے متعلق کسی بھی جائداد کے سلسلہ میں متولی کو مالکانہ حق نہیں ہوتا ہے، اس کی حیثیت محض ایک نگراں کی ہوتی ہے، جو کہ عام مسلمانوں اور وقف بورڈ کے آگے جواب دہ ہوتا ہے۔ اگر متولی کی طرف سے وقف کی جائداد میں خورد برد کی جائے یا اسے بیچ دیا جائے تو          نہ صرف یہ قانونی طور پر جرم ہے ، بلکہ اللہ رب العزت کے عتاب کے لیے بھی تیار رہناچاہیے ۔

 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے  ارشادفرمایا ہے لا تخونوا الله والرسول ولا تخونوا أماناتكم وأنتم تعلمون. (اے ایمان والو!خدا اور رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ ہی اپنی امانتوں میں خیانت کرو) 

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد  فرمایا  کہجس کے پاس امانت نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس کے پاس کوئی عہد نہیں ہے اس کا کوئی مذہب نہیں ہے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ ہر وہ گوشت جو حرام چیزوں سے اگتا ہے وہ جہنم کا زیادہ مستحق ہے۔

ہم سب جان لیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والی کی آنکھوں کو جانتا ہے، ا س  کے سینہ کے راز سے واقف ہے اور وہ ہر ایک کو اس کی ایمانداری کے درجے کے مطابق بدلہ دیتا ہے، جیسا کہ غدار کو غداری کی  سزا دی جاتی ہے اور وہ آخرت میں ملعون ہے، وہ اپنے رب کا نافرمان، اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے ۔

میرے محترم بزرگو!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خیانت سے خبردار کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خیانت سے بچو، کیونکہ یہ بہت برا معاملہ ہے۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امانت اس کو واپس کرو جس نے تمھارے پاس امانت رکھی ہے اور جو تم سے خیانت کرے اس میں خیانت نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا  ﴿ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴾ [آل عمران: 161]

اللہ تعالیٰ نے اس مال غنیمت کے بارے میں فرمایا ہے جو عام لوگوں کا مال ہے: "اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اپنے مال  خیانت  کو لے کر آئے گا، پھر ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور وہ اس سے محروم نہیں ہوں گے ۔

اس سلسلے میں سب سے بڑی وعیداس حدیث میں ہے کہ عن عائشة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ ظَلَم قِيدَ شِبْرٍ مِن الأرْضِ؛ طُوِّقَهُ مِن سَبْعِ أَرَضِين(  صحيح متفق عليه)

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اگر کسی نے ایک بالشت بھر زمین بھی ظلم سے لے لی، تو سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا“

ان احادیث و آیات کی روشنی میں یہ بات تو ظاہر ہے کہ وقف کی جائیدادپر قبضہ کرنے والے متولی یا اس میں خورد کرنے والے مسلمان پر کس قدر وعیدیں ہیں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ان وعیدوں سے محفوظ فرمائیں  ( آمین )

حضرات گرامی قدر !

اوقاف کی جائدادیں ملت اسلامیہ کا اثاثہ ہیں، یہ اللہ کے نام پر دی گئی وہ جائداد ہیں، جو اللہ کی ملکیت ہیں اور عام مسلمانوں کے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے ہیں، ایک بار اگر کسی جائداد کو وقف کر دیا گیا تو وہ قیامت تک وقف ہی رہے گی ، اس کو کسی بھی صورت میں منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ وقف کی جائدادوں پر قبضہ کرنا یا ان کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا نا جائز اور حرام ہے   ، جیسا کہ مذکورہ آیات قرآنی واحادیث سے ظاہر ہوا۔ 

آج ہندوستان میں مسلمان مطلقہ عورتوں کا مسئلہ بڑا نازک ہے، معاشرہ میں کنواری لڑکیوں  کا نکاح دشوار سمجھا جاتا ہے، مطلقہ عورتوں کا نکاح تو دشوار تر ہو جاتا ہے، پھر ان کی کفالت کیسے کی جائے ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آج ملت اپنی معاشی کسمپرسی کےسبب ان ضرورت مندوں کے لیے کوئی منظم نظام نہیں بنا پا رہی ہے۔ 

 اس کی وجہ سے بہت سے یتیم اور بے سہارا مسلمان لڑکے اور لڑکیاں نیز کسی سہارے سے محروم خواتین عیسائی مشنریز اور فرقہ پرست تنظیموں کے لئے  لقمۂ تر بنتی جارہی ہیں، ایسے بچوں کو ملک کے مختلف چرچوں اور آشرموں میں لے جا کر رکھا جاتا ہے، کشمیر سے ایسے بچے ہزاروں کی تعداد میں اٹھالئے گئے اور انہیں مرتد بنادیا گیا۔ مسلمانوں کے پاس بہت ہی وقف کی اراضی موجود ہیں ، ضرورت ہے کہ ایسے بے سہارا لوگوں کے لئے آسرا گھر تعمیر کیا جائے اور ان کی کفالت کا انتظام کیا جائے ، یہ صرف کچھ غریبوں کی مدد نہیں ہوگی ؛ بلکہ یہ بہت سےمسلمانوں کے ایمان کی بھی حفاظت ہوگی۔اس کے علاوہ لڑکیوں کے لیے علیحدہ تعلیم کے اسکول و کالج قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت یہ دو مسئلے ایسے ہیں جو مسلمانوں کو شریعت پر باقی رکھنے اور ان کے ایمان کی حفاظت کے لئے ضروری ہیں ، وقف کے موجودہ قانون میں اگرچہ اوقافی جائیداد کی فروخت کو منع کیا گیا ہے ، لیکن اس کوڈیولپ کرانے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے ، اسی طرح لیز کی ۳۰ سال طویل مدت کی سہولت پیدا کی گئی ہے، جو گذشتہ قوانین میں حاصل نہیں تھی ، ان نکات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وقف کے ذریعہ مسلمانوں کی ان ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے ، جو نہایت اہمیت کی حامل ہیں ، لیکن ابھی ان کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔

در اصل اسلام کے اندر احسان وصلہ رحمی کرنے کے حوالے سے وقف کا بڑا مقام ہے۔ یہ ایک ایسی صورت ہے جو جہاں کفالت و نگہداشت کے سارے گوشے سمیٹے ہوئے ہے وہیں اس کے ذریعہ معاشرہ کی بہت ہی ناگزیر ضرورتوں، مانگوں اور حادثاتی امور کا بروقت مداوا ہو سکتا ہے۔ اسے بروئے کار لانے سے انداز ہ ہوتا ہے کہ مال کے ذریعے معاشرے کی ضرورتیں  پوری ہو جاتی ہیں  اور اس کی وجہ سے زندگی کتنی پر سکون ہو جاتی ہے اور سارا معاشرہ اخوت و بھائی چارہ اور لطف ومہربانی کی لڑی میں کس طرح منسلک ہو جاتا ہے۔

یہ ایک نا قابل انکار سچائی ہے کہ جب سے وقف کی اہمیت امیر و کبیر لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوئی تو معاشرہ بری طرح زبوں حالی کا شکار ہوگیا اور آج حال یہ ہے کہ کوئی وقف کانام تک لینے والانہیں، اس کے سارے نشانات ذہن وفکر سے مٹتے چلے جارہے ہیں ۔ یہ سبق ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہیے کہ زکوۃ  اور اوقاف اسلام کے دو اہم اقتصادی ادارے ہیں جن سے مسلمانوں کی معاشی بدحالی پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن افسوس کہ سب سے زیادہ انہی اداروں کے بارے میں غفلت برتی جاتی ہے  اور مسلمانوں کے اہل خیر و صاحب ثروت حضرات نے  اپنی جائیدادوں میں سے کچھ حصہ وقف کرنا بند کردیا ہے ، حالاں کہ مرنے کے بعد ثواب پانے کے لیے اور اپنی نیکی کا  وسیلہ چھوڑنے کے لیے یہ ایک واحد عبادت ہے ۔

وقف کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کی ذمہ داری 

اگر ملت کے اس قیمتی سرمایہ کو واگزار کرا لیا جائے اور صحیح مصرف میں ان کا استعمال ہو جائے تو نہ صرف مسلمانوں کی صورت حال بد ل جائے گی بلکہ ملت دوسری اقوام کو بہت کچھ دینے کے لائق ہوگی وقف املاک کی ترقی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ معاشرہ کے باشعور اور ملت کا درد رکھنے والے افراد آگے آئیں اور وقف املاک کے تحفظ اور ان کی ترقی میں حکومت اور وقف بورڈوں کی مدد کریں، ایسے افراد اور جماعتوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں جو وقف کی جائدادوں پر نا جائز طریقے سے قابض ہیں بلکہ ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کریں اور ان کو قانونی طور پر مجبور کریں کہ وہ وقف کی املاک پر سے اپنانا جائز اور غاصبانہ قبضہ ختم کریں۔ ایسے متولیوں اور افراد جنہوں نے وقف کی املاک کو فروخت کر دیا ہے، یا ان کو وقف کے مقاصد میں خرچ کرنے کے بجائے ذاتی مفاد میں خرچ کر رہے ہیں ان سے وقف کی املاک کو خالی کروائیں۔

حضرات گرامی قدر !

آج حالات مزید بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں، لیکن کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ یقیناً ہم اور آپ ہی ہیں۔ ہم اپنی ذاتی زمین کا ایک انچ بھی کسی کو دینے کے روادار نہیں ہوتے لیکن کبھی اپنے اوقاف کو بچانے کے بارے میں نہیں سوچتے ۔ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے بزرگ اپنی تمام جائدادوں کو اس لیے تو نہیں وقف کرگئے تھے کہ وہ غیروں کے ناجائز تصرف اور خوردبرد کا شکار ہوں ؟ جی نہیں، انھوں نے یہ اوقاف اس لیے چھوڑے تھے کہ آئندہ نسلوں کا مستقبل بہتر ہو اور انھیں ملت کی بہبود کی خاطر استعمال کیا جائے۔ 

تو آئیے ہم عہد کریں 

  • ہم بحیثیت  مسلمان اور  ہندوستان کے شہری، ملک بھر میں وقف املاک کے تحفظ کے لیے ہر ممکن جد وجہد کریں گے 
  • کسی بھی طرح کے تجاوزات،غیر قانونی قبضہ یا وقف املاک کی غیر مجاز منتقلی کے خلاف حکومت ہند اوروقف ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے میں جمعیۃ علماء ہند اور دیگر وقف پروٹیکشن اداروں کا تعاون کریں گے اور ان کے ساتھ ہر محاذ پر کھڑے ہوں گے ۔
  • وقف املاک کی اہمیت سے آگاہ کرنے اور ان کی دیکھ بھال اور تحفظ میں ان کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کے لیے عوامی بیداری مہم  چلائیں گے  ، نیز  ایسی مہم چلانے والوں کا تعاون کریں گے ۔
  • ہم وقف کی جائیدادوں میں خورد برد کرنے والوں کا سماجی بائیکاٹ کریں گے اور کوشش کریں گے کہ  وقف کو واقف کے منشاء کے مطابق  ہی استعمال کیا جائے ۔
  • ہم سب صاحب ثروت اور مالدار حضرات اللہ کی رضا کے لیے اپنی جائیداد کاایک حصہ وقف کریں گے اور اپنی اولادکو بھی اس کی نصیحت کریں گے ۔

 

حسب ہدایت : حضرت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب صدر جمعیۃ علماء ہند 

 جاری کردہ:شعبہ نشرواشاعت جمعیۃ علماء ہند۔۱، بہادر شاہ ظفر مارگ ، آئی ٹی او  نئی دہلی 

 

 

 

खुत्बा

 

यौमे  जुमा 

दिनांक: 18 रमज़ान-उल-मुबारक 1445H तदनुसार 29 मार्च 2024

'औक़ाफ़ संरक्षण दिवस' के शीर्षक से

 

वक़्फ क्या है?

अपनी संपत्ति को व्यक्तिगत स्वामित्व से निकालकर अपने लिए सद्क़ाए जरिया  का निरंतर माध्यम बनाना और उसे अल्लाह की संपत्ति घोषित करना ही वक़्फ अला-अल्लाह  है। वक़्फ का सबसे बड़ा इनाम यह है कि वक़्फ करने वाले को उसकी मृत्यु के बाद भी उसका पुण्य मिलता रहता है। और इससे बड़ी बात यह है कि उसने वक़्फ करके अपनी संपत्ति अल्लाह तआला को कर्ज दे दी है। इस संबंध में अल्लाह ने पवित्र कुरान में फरमाया है:

من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا فيضاعفه له وله أجر كریم

(कौन है जो अल्लाह को ऋण दे, अच्छा ऋण, कि वह उसको उसके लिए बढ़ाये, और उसके लिए सम्मान वाला बदला है।

वक़्फ की इस्लामी अवधारणा

वक़्फ इबादत एक ऐसी इबादत है जो मुसलमानों को सामाजिक और आर्थिक जीवन की ताकत और ऊर्जा प्रदान करती है। अगर मुसलमान इसे अपनी सही भावना के साथ जारी रख सकें,तो कोई कारण नहीं है कि सामाजिक और आर्थिक समस्याओं का समाधान न हो जाए

यही कारण है कि अल्लाह तआला ने अमीरों को यह निर्देश दिया है कि उनके माल में गरीबों का भी हक है, यह हक ज़कात के रूप में भी है और सदका-खैरात के रूप में भी है।

अल्लाह तआला का फरमान है-

لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ-وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ-وَ السَّآىٕلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِۚ-وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَۚ-وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاۚ-

“नेकी (पुण्य) यह नहीं कि तुम अपने चेहरे पूरब और पश्चिम की ओर कर लो, बल्कि नेकी यह है कि मनुष्य ईमान लाये अल्लाह पर और परलोक के दिन पर और फरिश्तों पर और किताब पर और पैग़म्बरों पर। और धन दे अल्लाह के प्रेम में और सम्बन्धियों को और अनाथों को और मुहताजों को और मुसाफिरों को और माँगने वालों को और गर्दने छुड़ाने में। और नमाज स्थापित करे और ज़कात अदा करे और जब प्रण कर ले तो उसको पूरा करे।“

इसलिए इस्लाम में शुरू से लेकर आज तक वक़्फ का सिलसिला जारी है। सबसे पहले, अल्लाह के पैगंबर (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) ने मस्जिद क़ुबा के लिए ज़मीन समर्पित की। उसके बाद सबसे पहला भलाई के लिए वक़्फ का काम पवित्र पैगंबर (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) द्वारा मदीना में सात बागों का वक़्फ करना है, यह बाग मुखैरिक नामक एक यहूदी के थे जो हिजरत से बत्तीसवें महीने के आरंभ में उस समय मारा गया, जब वह गजव--उहद में मुसलमानों के साथ मिलकर जंग लड़ रहा था। उसने वसीयत की कि अगर मैं मारा जाऊं तो मेरे माल मोहम्मद के लिए होंगे। इसलिए गजव--उहद में जब वह मारा गया और वह यहूदियत पर ही कायम था, तो नबी करीम ने फरमायाः-

"मुखैरिक एक अच्छा यहूदी था। नबी करीम ने उन सातों बागों को कब्जे में लिया, फिर उन्हें सदका (अर्थात वक़्फ) कर दिया, फिर उसके बाद हजरत उमर रजीअल्ला-हो-अनहो का वक़्फ हुआ। हजरत अब्दुल्लाह इब्ने उमर से वर्णित है कि हज़रत उमर (रजीअल्ला-हो-अनहो) को खैबर में एक जमीन मिली, तो उन्होंने इस भूमि को वक़्फ कर दिया।"

एक अवसर पर पैगंबर(सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम) ने मुसलमानों की आवश्यकताओं को देखते हुए को वक़्फ करने के लिए प्रोत्साहित किया, तो हज़रत उस्मान (रजीअल्ला-हु तआला अनहो) ने इस प्रोत्साहन पर लब्बैक (समर्थन) कहा। हजरत उस्मान से वर्णित है कि अल्लाह के दूत (सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम) मदीना आए तो वहां रूमा के कुंआ के अलावा कोई मीठा पानी नहीं था, तो आपने फरमाया: क्या कोई ऐसा व्यक्ति है जो रूमा के कुंए को खरीद कर अपने डोल (कुंए से पानी निकालने के बर्तन) के साथ इसमें मुसलमानों के डोल को भी साझा करे कि जन्नत में उसके लिए भलाई हो. तो मैंने इसे अपनी वास्तविक संपत्ति से खरीद लिया और इसमें अपने डोल के साथ मुसलमनों के डोल को भी साझा कर लिया, यानी इसे वक़्फ कर दिया (अल-नसाई और अल-तिर्मिज़ी द्वारा वर्णित)।

वक़्फ के उद्देश्य

इस्लाम में वक़्फ के बहुत महान उद्देश्य हैं। विशेषकर मानवता की भलाई, जरूरतमंदों, विकलांगों और विधवाओं का भरण-पोषण इसका आधार है। वक़्फ करने के निम्नलिखित रूपों से इसका अंदाजा लगाया जा सकता हैइसके साथ ही यह भी पता चलता है कि मानव जीवन के सभी क्षेत्रों और समाज के सभी वर्गों और सभी प्रकार की जरूरतों और चाहतों के लिए वक़्फ स्थापित किए गए

उनमे से खुछ निम्नलिखित हैं

(1) कुरान और हदीस, मस्जिद और शिक्षा, स्कूल और विश्वविद्यालयों, और पुस्तकालयों के निर्माण के लिए वक़्फ । (2) पानी की आपूर्ति के लिए वक़्फ, मुसलमान पानी की सबीलें लगवाते थे और मानते थे कि इसका पुण्य मृत्यु के बाद भी मिलता रहेगा। (3) भोजन की आपूर्ति के लिए वक़्फ: जरूरतमंदों, गरीबों और भिखारियों,यात्रियों और परदेसी और छात्रों के भोजन के लिए वक़्फ की स्थापना की की जाती थी। और मुसलमान ऐसे वक़्फ की स्थापना करने में एक दूसरे से आगे बढ़ने के लिए प्रतिस्पर्धा करते थे। (4) विधवाओं, अनाथों, विकलांगों और तलाकशुदा महिलाओं के लिए वक़्फ (5) स्वास्थ्य व्यवस्था के लिए वक़्फ (6) हाजियों के लिए आवास और भोजन के लिए वक़्फ (7)पवित्र स्थानों के लिए वक़्फ (8) बच्चों, रिश्तेदारों और करीबी लोगों के लिए वक़्फ (9) सीमाओं की रक्षा, जिहाद और कैदियों को मुक्त कराने के लिए वक़्फ (10) यात्रियों के लिए वक़्फ (11) पर्यावरण का संरक्षण, जानवरों और पक्षियों के लिए वक़्फ (12) शादियों और दुल्हन के आभूषणों के लिए वक़्फ (13) गरीब बच्चों के खेल-कूद के मैदानों और पार्कों के लिए वक़्फ (14) स्तनपान कराने वाली महिलाओं के लिए वक़्फ (15) वीरान औक़ाफ़ भूमि को बसाने और उपयोगी बनाने के लिए वक़्फ.

भारत में औक़ाफ़ का इतिहास

भारत में मुसलमानों के आगमन के बाद वक़्फ  की स्थापना का सिलसिला शुरू हुआ और जहां-जहां भी मुसलमान बसे, वहां विभिन्न धार्मिक और धर्मार्थ उद्देश्यों के लिए मुसलमानों ने अपनी संपत्ति वक़्फ कीं। इन वक़्फ से मुस्लिम वर्ग के पिछड़े लोगों और संगठनों की मदद होती थी। उनकी शिक्षा और विकास का माध्यम बनते थे, लेकिन जैसे ही इस देश में अंग्रेजों की सरकार स्थापित हुई, औक़ाफ़ की स्थिति खराब होने लगी। ब्रतानवी सरकार ने बहुत से औक़ाफ़ को जब्त कर लिया और अनगिनत औक़ाफ़ को अपने स्वामित्व में लेकर उनकी वित्तीय स्थिति को समाप्त कर दिया। 

अंग्रेजी सरकार की इस कार्रवाई को देखकर बहुत से लोगों ने औक़ाफ़ की संपत्तियों को हड़प लिया और किरायेदार के बजाय उनके मालिक बन बैठे। जब औक़ाफ़ की संपत्तियों पर बड़े स्तर पर इस तरह कब्जे किए गए और बर्बादी हुई तो कुछ लोगों ने अंग्रेजी सरकार से औक़ाफ़ के संरक्षण के लिए वक़्फ कानून पारित करने की मांग कीइस तरह 1923 में मुस्लिम वक़्फ अधिनियम लागू हुआ और एक देश की आजादी के बाद 1954 में नया वक़्फ कानून पारित हुआ। कई संशोधनों के बाद, वर्ष 1995 में संसद के दोनों सदनों ने केंद्रीय वक़्फ अधिनियम 1995 पारित किया और इस प्रकार स्वतंत्रता से पहले और बाद में औक़ाफ़ के संबंध में कई कानून पारित किए गए, लेकिन इन कानूनों का कोई खास परिणाम नहीं निकला।

बल्कि जिन वक़्फ बोर्डों से वक़्फ संपत्तियों की रक्षा की उम्मीद की जा रही थी, उन वक़्फ बोर्डों ने पहले वक़्फ संपत्तियों के उद्देश्यों को नष्ट किया और फिर बड़ी संख्या में संपत्तियों को औने-पौने दामों में बेच कर भारत के मुसलमानों की तरक्की के दुश्मन बन गए। स्वयं मुसलमान भी काफी संख्या में वक़्फ संपत्तियों की हेराफेरी में लिप्त हैं। लगातार वक़्फ करने वालों इच्छा और वक़्फ के उद्देश्यों की बेदर्दी से अनदेखी की जा रही है। बड़े-बड़े व्यापारियों,फैक्ट्री मालिकों और स्वार्थी लोगों ने वक़्फ की संपत्ति पर अवैध कब्जा कर रखा है। वह वक़्फ भूमि जो मुस्लिम बादशाहों, शासकों, युवाओं और अमीर लोगों द्वारा मुसलमानों के कल्याण,उनके शैक्षिक,सामाजिक और आर्थिक जीवन को सुधारने के लिए वक़्फ की थीं, उनमें से बहुत सी जगहों पर सरकार ने बड़ी-बड़ी इमारतों का निर्माण किया, कई एकड़ भूमि की घेराबंदी कर दी। एक रिपोर्ट के अनुसार, देश में 10 हजार वक़्फ संपत्तियों पर सरकारी संस्थानों, संरक्षकों और निजी संस्थानों का कब्जा है। 

सच्चर कमेटी की रिपोर्ट के अनुसार औक़ाफ़ की संपत्तियां एक सावधानीपूर्वक  अनुमान के अनुसार ५ लाख हैं 2 लाख करोड़ रुपये का सबसे बड़ा घोटाला कर्नाटक में हुआ इस राज्य में 54,000 एकड़ वक़्फ पंजीकृत भूमि है, जिसमें से 27,000 एकड़ जमीन बेची जा चुकी है। वक़्फ बोर्ड के कर्मचारियों ने कुछ राजनेताओं और भू-माफियाओं के साथ मिलकर यह लूट मचाई। मध्य प्रदेश में 55,000 करोड़ की वक़्फ संपत्तियों में से 70 प्रतिशत भूमि पर अवैध कब्जे हो चुके हैं। आंध्र प्रदेश में 31000  वक़्फ भूमि  पर  कब्जा हो चुका है.

वक़्फ संपत्तियों को खुर्द-बुर्द करने वालों के लिए चेतावनी

वक़्फ संपत्ति की देखरेख और प्रबंधन मुतवल्ली की जिम्मेदारी है, वक़्फ से संबंधित किसी भी संपत्ति के संबंध में मुतवल्ली को मालिकाना अधिकार नहीं होता है, उसकी स्थिति केवल एक संरक्षक की होती है, जो कि आम मुसलमानों और वक़्फ बोर्ड के प्रति जवाबदेह होता है। यदि वक़्फ संपत्ति को मुतवल्ली द्वारा खुर्द-बुर्द किया जाए या उसे बेच दिया जाए तो यह न केवल कानूनी रूप से अपराध है, बल्कि उक्त व्यक्ति को सर्वशक्तिमान अल्लाह की सजा के लिए भी तैयार रहना चाहिए।

पवित्र कुरान में अल्लाह ने फरमाया है:

 لا تخونوا الله والرسول ولا تخونوا أماناتكم وأنتم تعلمون

(ऐ ईमान वालो! ख़ुदा और रसूल के साथ धोखा न करो और अपनी अमानतों में बेईमानी मत करो।

आप (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) ने फरमाय कि जिसके पास अमानत  नहीं, उसका कोई ईमान नहीं और जिसके पास कोई वचनबद्धता नहीं, उसका कोई धर्म नहीं है

आप (सल्लल्लाहु अलैहि सल्लम)ने फरमाया कि हर वह मांस जो हराम चीजों से उत्पन्न होता है, वह जहन्नम (नरक) के अधिक योग्य है।

हम सब जान लें कि अल्लाह हम पर नजर रखे हुए है, और यह कि अल्लाह धोखेबाजों की आंखों को जानता है, उसके सीने के रहस्यों को जानता है, और वह हर किसी को उसकी ईमानदारी के दर्जे के अनुसार बदला देता है। जैसे कि गद्दार को गद्दारी के लिए दंडित किया जाता है और वह आख़िरत में शापित है, वह अपने रब का अवज्ञाकारी है, अपने प्रति जुल्म करने वाला है।

 

मुहतरम बुजुर्गों!

अल्लाह के दूत (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) ने हमें धोखाधड़ी के विरुद्ध खबरदार किया है। आप सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम ने फरमाया "धोखेबाजी से बचो, क्योंकि यह बहुत बुरा मामला है। अल्लाह के दूत (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) ने फरमायाः अमानत उसको वापस करो जिसने तुम्हारे पास अमानत रखी है और जो धोखा दे, उसे धोखा न दो। अल्लाह तआला ने फरमाया-

(وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ )" [अल-इमरान: 161]

" और जो कोई छिपायेगा वह अपनी छिपायी हुई चीज़ को परलोक के दिन प्रस्तुत करेगा। फिर प्रत्येक व्यक्ति को उसके किए हुए का पूरा बदला मिलेगा और उन पर कुछ अत्याचार न होगा।"

इस संबंध में सबसे बड़ी चेतावनी उस हदीस में है कि आयशा रजीअल्ला अनहा से वर्णित है कि पैगंबर ने फरमाया  

مَنْ ظَلَم قِيدَ شِبْرٍ مِن الأرْضِ؛ طُوِّقَهُ مِن سَبْعِ أَرَضِين  (بخاری و مسلم)

उम्म-उल-मोमिनीन आयशा (रज़ियल्लाहु अन्हु) से वर्णित है कि नबी (सल्लल्लाहु अलैहि व सल्लम) ने फरमाया: "यदि किसी ने अन्याय से एक बित्ते की नाप बराबर भी ज़मीन ले ली,तो सात भूमियों का फंदा उसके गले में डाल दिया जाएगा।” 

इन हदीसों और आयतों के आलोक में यह बात स्पष्ट है कि वक़्फ संपत्ति पर कब्जा करने वाले मुतवल्ली या उसमें खुर्द-बुर्द करने वाले मुसलमानों पर कितनी कठोर सज़ाएं हैं। अल्लाह हम सभी को इन सजाओं से बचाए रखे (आमीन)।

सम्मानित जन

औक़ाफ़ संपत्तियां मुसलमानों की संपत्ति हैं, यह अल्लाह के नाम पर दी गई वह संपत्तियां हैं, जो आम मुसलमानों के हित के लिए उपयोग करने के लिए हैं। एक बार अगर किसी संपत्ति को वक़्फ कर दिया गया तो वह कियामत के दिन तक वक़्फ ही रहेगी, इसको किसी भी स्थिति में रद्द नहीं किया जा सकता है। वक़्फ संपत्तियों पर कब्ज़ा करना या उनको व्यक्तिगत लाभ के लिए उपयोग करना अवैध और हराम है। जैसा कि उपर्युक्त कुरान की आयतों और हदीसों से पता चलता है

आज भारत में तलाकशुदा मुस्लिम महिलाओं की समस्या बहुत गंभीर है, समाज में कुंवारी लड़कियों की शादी कठिन मानी जाती है, तलाकशुदा महिलाओं की शादी तो और भी मुश्किल हो जाती है, फिर उनका भरण-पोषण कैसे किया जाएपरिणामस्वरूप आज मुसलमान अपनी दयनीय आर्थिक स्थिति के कारण इन जरूरतमंद लोगों के लिए कोई संगठित व्यवस्था नहीं बना पा रहा है

इसके कारण कई अनाथ और बेसहारा मुस्लिम लड़के-लड़कियों के साथ-साथ बेसहारा महिलाएं भी मिशनरियों और सांप्रदायिक संगठनों का शिकार बन रही हैंऐसे बच्चों को देश के विभिन्न गिरजाघरों और आश्रमों में ले जाकर रखा जाता है। कश्मीर से ऐसे बच्चे हजारों की संख्या में उठा लिए गए और उन्हें धर्मत्यागी बना दिया गया। मुसलमानों के पास बहुत सारी वक़्फ जमीनें हैं, जरूरत है कि ऐसे बेसहारा लोगों के लिए आश्रय स्थलों का निर्माण किया जाए और उनके भरण-पोषण की व्यवस्था की जाए। इससे न केवल कुछ गरीबों की मदद नहीं होगी; बल्कि इससे कई मुसलमानों के ईमान की भी सुरक्षा होगी। 

इसके अलावा लड़कियों के लिए अलग शिक्षा के स्कूल और कॉलेज स्थापित करने की भी जरूरत है फिलहाल यह दो समस्याएं ऐसी हैं जो मुसलमानों को दीन पर कायम रखने और उनके ईमान की रक्षा के लिए जरूरी हैं। वक़्फ के वर्तमान कानून में हालांकि वक़्फ की संपत्तियों की बिक्री पर रोक लगाई गई है, लेकिन इसको डेवलप कराने की गुंजाइश प्रदान की गई है। इसी तरह, 30 साल की लंबी लीज की अवधि की सुविधा दी गई है, जो कि पिछले कानूनों में उपलब्ध नहीं थी। इन बिंदुओं का लाभ उठाते हुए मुसलमानों की जरूरतों को वक़्फ के माध्यम से पूरा किया जा सकता है, जो बहुत महत्वपूर्ण हैं। लेकिन अभी इनकी कोई व्यवस्था नहीं है।

यह एक निर्विवाद सत्य है कि जब से वक़्फ का महत्व अमीरों और बड़े लोगों के मन से समाप्त हो गया है, तब से समाज दयनीय स्थिति का शिकार हो गया है और आज स्थिति यह है कि कोई भी वक़्फ का नाम तक लेने वाला नहीं है, इसके सभी निशान मन और विचारों से मिटते चले जा रहे हैं। हमें यह सबक हमेशा याद रखना चाहिए कि ज़कात और औक़ाफ़ इस्लाम की दो महत्वपूर्ण आर्थिक संस्थाएं हैं, जिनसे मुसलमानों की आर्थिक बदहाली को नियंत्रित किया सकता है, लेकिन दुर्भाग्य से सबसे अधिक इन्हीं संस्थाओं की अनदेखी की जा रही है और मुसलमानों के परोपकारी और मालदार लोगों ने अपनी संपत्तियों में से कुछ हिस्सा वक़्फ करना बंद कर दिया है, हालांकि मरने के बाद पुण्य पाने के लिए और अपने पीछे नेकी का साधन छोड़ने के लिए यह एकमात्र इबादत है।

वक़्फ की सुरक्षा मुसलमानों की जिम्मेदारी

अगर मुसलमानों की इस बहुमूल्य संपत्ति को छुड़ा लिया जाए और सही तरीके से उनका उपयोग हो जाए, तो न केवल मुसलमानों की स्थिति बदल जाएगी, बल्कि मुसलमान दूसरे समुदायों को बहुत कुछ देने की स्थिति में होंगे। वक़्फ संपत्तियों के विकास के लिए यह भी महत्वपूर्ण है कि समाज के जागरूक लोग और मुसलमानों का दर्द रखने वाले लोग आगे आएं और वक़्फ संपत्तियों की सुरक्षा और उनके विकास में सरकार और वक़्फ बोर्डों की मदद करें, ऐसे व्यक्तियों और पार्टियों को प्रोत्साहित न करें जो वक़्फ संपत्तियों पर अवैध तरीके से कब्जा जमाए हुए हैं, बल्कि ऐसे लोगों का बहिष्कार करें और उन्हें कानूनी रूप से मजबूर करें कि वह वक़्फ संपत्तियों पर से अपना अवैध कब्जा खत्म करें। ऐसे मुतवल्लियों और व्यक्ति जिन्होंने वक़्फ की संपत्तियां बेच दी हैं, या उनको वक़्फ के उद्देश्यों के लिए खर्च करने के बजाय व्यक्तिगत लाभ के लिए खर्च कर रहे हैं, उनसे वक़्फ की संपत्तियों को खाली करवाएं।

सम्मानित जन!

आज स्थिति अत्यंत दयनीय होती जा रही है, लेकिन क्या आपने कभी सोचा है कि इन सबके लिए जिम्मेदार कौन है? निःसंदेह हम और आप ही हैं। हम अपनी निजी जमीन का एक इंच भी किसी को देने के लिए तैयार नहीं होते, लेकिन कभी अपने औक़ाफ़ को बचाने के बारे में नहीं सोचते। कभी यह नहीं सोचते कि हमारे पूर्वजों ने अपनी सारी संपत्ति इसलिए तो नहीं वक़्फ कर गए थे कि वह गैरों के अनधिकृत उपयोग और खुर्द-बुर्द का शिकार हों? जी नहींउन्होंने यह औक़ाफ़ इसलिए छोड़ी थी कि आने वाली पीढ़ियों का भविष्य बेहतर हो और इनका इस्तेमाल मुसलमानों के कल्याण के लिए किया जाए।

तो आइए हम वचन लें

  • हममुसलमान और भारत के नागरिक के रूप में, देशभर में वक़्फ संपत्तियों की रक्षा के लिए हर संभव संघर्ष करें।
  • किसीभी प्रकार के अतिक्रमण, अवैध कब्जे या वक़्फ संपत्ति के किसी अनधिकृत हस्तांतरण के खिलाफ भारत सरकार और वक़्फ अधिनियम के तहत कार्रवाई करने में जमीअत उलमा--हिंद और अन्य वक़्फ संरक्षण के लिए कार्य करने वाली संस्थाओं का सहयोग करेंगे और उनके साथ हर मोर्चे पर खड़े रहेंगे।
  • वक़्फ संपत्तियों के महत्व के बारे में जनता को आगाह करने और उनके रखरखाव और संरक्षण में उनकी भागीदारी को प्रोत्साहित करने के लिए जन जागरूकता अभियान चलाएंगे, साथ ही ऐसे अभियान चलाने वालों का समर्थन करेंगे
  • हम वक़्फ संपत्तियों में खुर्द-बुर्द करने वालों का सामाजिक बहिष्कार करेंगे और कोशिश करेंगे कि वक़्फ के उद्देश्यों के अनुसार उपयोग किया जाए। 
  • हम सभी अमीर और संपन्न लोग अल्लाह की खुशी के लिए अपनी संपत्ति का एक हिस्सा वक़्फ करेंगे और अपने बच्चों को भी ऐसा करने की सलाह देंगे।

 

निर्देशानुसार

हजरत मौलाना महमूद असद मदनी साहब, अध्यक्ष जमीअत उलमा--हिंद 

जारीकर्ता: प्रकाशन एवं प्रसारण विभाग, जमीअत उलमा--हिंद 

1, बहादुर शाह जफर मार्ग, आईटीओ नई दिल्ली

www.jamiat.org.in email: [email protected]

Follow us on:

Facebook: https://www.facebook.com/jamiat.org.in/

@Twitter: https://twitter.com/JamiatUlama_in

@YouTube Channel: http://www.youtube.com/c/Jamiatulama_in

@Instagram: https://www.instagram.com/jamiatulama_in/

 

 

March 26, 2024