98 persent of Muslims were arrested in Mewat riots.

 میوات فساد میں 98 فی صد مسلمان ہی گرفتار تو 14/ مسجدوں پر حملے کرنے والے کہاں گئے؟

 

جمعیۃ علماء ہند کے ایک اعلی سطحی وفد کا نوح میں وکیلوں کے ساتھ میٹنگ، صدر جمعیۃ علماء ہندمولانا محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر بے قصوروں کے مقدمات لڑکے کا فیصلہ

نئی دہلی 3/ستمبر 23 ء:  میوات کے  صرف نوح میں فساد نہیں ہوا، بلکہ یہ فساد کئی قصبوں اور شہروں تک پھیل گیا۔ اس درمیان مسلمانوں کی پراپرٹی، عبادت گاہوں اور جان و مال پر بھی حملہ ہوا، کل 14/ مساجد میں آگ زنی کی گئی۔ لیکن جب گرفتاری کا وقت آیا تو یک طرفہ طور پر مسلمانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، اب تک 300 افراد گرفتا رہوئے ہیں، ان میں 294 مسلمان ہیں، جو انتظامیہ کی طرف سے عصبیت کا مظہر ہے۔

ان حالات کا با ضابطہ جائزہ لینے کے لیے آج جمعیۃ علماء ہند کے ایک اعلی سطحی وفد نے میوات کا دورہ کیا اور جمعیۃ کی طرف سے ایک ماہ سے جاری ریلیف و بازآبادکاری کا جائزہ لیا۔ دریں اثنا ہفتہ کی شام نوح میں جمعیۃ علماء ہند کے قانونی امور کے ذمہ دار مولانا نیاز احمد فاروقی کی سرکردگی میں ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی۔ اس موقع پر ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند مولانا حکیم الدین قاسمی اور دیگر ذمہ دار موجود تھے، میٹنگ میں یہ بات سامنے آئی کہ زیادہ تر لوگ جو گرفتار ہوئے ہیں، وہ غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا فساد سے کچھ لینا بھی نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے سلسلے میں مولانا نیاز احمد فاروقی نے بتایا کہ ہمارے پاس 84 درخواستیں آئی ہیں جبکہ میوات میں 300 کے قریب افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔ ملک کے آئین کے مطابق ان کی قانونی مدد بھی کی جائے گی۔ ہم شرپسندوں کی گرفتاری کے خلاف نہیں ہیں، لیکن یک طرفہ کارروائی امتیاز کی علامتوں کو ظاہر کرتی ہے اور ایک طبقہ میں بے اطمینانی پیدا کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر میوات میں 14/ مسجدوں پر بھی حملہ ہوا ہے، ان کے مجرمین کہاں ہیں اور ان کی اب تک گرفتاری کیوں نہیں ہوئی؟ ایسے سوالات صرف ہماری طرف سے نہیں بلکہ میڈیا میں بھی اٹھ رہے ہیں، سرکار اور انتظامیہ کو اس کا جواب دینا چاہیے۔ جمعیۃ علماء ہند کے پاس ان تمام مساجد کی تفصیلات موجود ہیں اور خود جمعیۃ ان میں سے دس مساجد کی تعمیرنو کرارہی ہے، ان مساجد میں حملے ہوئے، پلول میں تبلیغی جماعت کے کارکنان کو بڑی بے رحمی سے پیٹا گیا، پلول کی ایک مسجد کے محراب پر پیشاب خانہ لکھ دیا گیا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایسے شرپسند حکومت کی پشت پناہی کی وجہ بچے ہوئے ہیں۔

مولانا فاروقی نے بتایا کہ ہم نے یہاں کے حالات کے جائزے کے بعد یہ محسوس کیا ہے کہ میوات کے لوگ اس وقت مدد کے سب سے زیادہ حقدار ہے جس طریقے سے شر پسندوں نے یہاں پر حالات پیدا کیے اور اس کے بعد سرکار نے ناجائز طریقے سے بلڈوزر کیا اور اب تک گرفتاریا ں ہورہی ہیں، اسی طرح ماضی میں بھی شر پسندوں کی طرف سے بے شمار ماب لنچنگ کے واقعات پیش آئے، ہماری  اولین ذمہ داری ہے کہ ان لوگوں کی نہ صرف یہ کہ نفسیاتی طور سے مدد کی جائے تاکہ وہ ان حالات سے نبرد ازما ہو سکیں بلکہ جو ضرورت مند اور غریب ہیں ان کی قانونی اور دیگر ضروری مدد بھی کی جائے۔ جمعیۃ علماء ہند نے قانونی اقدامات کے لیے پہلے ہی ایک لیگل سیل تشکیل دی ہے، آج میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ نوح کے معروف وکیل طاہر روپڑیاجمعیۃ کی طرف سے مقدمات کی ذمہ داری نبھائیں گے اور ان لوگوں کی بھی مدد کی جائے جو بے گھر ہوگئے ہیں۔جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی کی قیادت میں جمعیۃ کے وفد نے فیروز پور جھرکا کا بھی دورہ کیا اور بازآبادکاری کے کاموں کا جائزہ لیا، نیز مدرسہ ابی بن کعب میں ضرورت مندوں کے درمیاں ریڑھیاں تقسیم کی گئیں۔ جمعیۃ کے وفد میں مولانا یحیی کریمی ناظم اعلی جمعیت علماء متحدہ پنجاب، مولانا غیور احمد قاسمی، مولانا شیر محمد امینی، مولانا حمزہ مفتی سلیم ساکرس،ماسٹر محمد قاسم مہوں، مولانا جمال -

 

Sept. 3, 2023


Related Press Releases