Every citizen has right to freely abide by his religion. Any attempt to abolish Muslim personal law will not succeed.

ہر شہری کو آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر کاربند رہنے کا حق حاصل، مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔
اگر کسی کو ہمارا مذہب پر چلنا پسند نہیں تو وہ کثرت میں وحدت پر مبنی اس عظیم ملک سے ہجرت کرجائے: مولانا محمود مدنی
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کے اجلاس میں کئی اہم تجاویز منظور، موجودہ حالات سے متعلق ایک اہم اعلامیہ منظور
دیوبند: 29 مئی:جمعیۃ علماء ہند کی مرکزی مجلس منتظمہ کا دوروزہ اجلا س دیوبند کے عثمان نگر (عید گا ہ میدان) میں آج دارالعلوم کے دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی کی دعا پر ختم ہوا۔ اجلاس کی صدارت صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کی، جب کہ نظامت کے فرائض مولانا حکیم الدین قاسمی ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند نے انجام دیے۔ آخری دن کئی اہم تجاویز منظور ہوئیں، جن میں خاص طور سے دستوری حقوق سلب کرنے اور یکساں سول کوڈ نافذ کرنے،گیان واپی مسجد اور متھرا عید گاہ، اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ہندی زبان اختیار کرنے سے متعلق تجاویز شامل ہیں، نیز ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیاجس میں تمام مسلمانوں کو خوف، مایوسی اور جذباتیت سے دور رہ کر اپنے مستقبل کی تعمیر کے کام میں لگ جانے کا مشورہ دیا گیا،نیز اجلاس میں یہ واضح موقف کا اعادہ کیا گیا کہ وطن سے محبت اور اس کے لیے قربانی دینے کو مسلمان ہر وقت تیار ہیں اور وہ اس سلسلے میں کسی سے کم نہیں ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے آخری صدارتی خطاب میں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر اس ملک کی حفاظت کے لیے ہماری جان بھی جائے گی تو ہمارے لیے سعادت کی بات ہو گی۔انھوں نے کہا کہ گل گزشتہ میں نے مسلمانوں کے مسائل پر گفتگو کی توکچھ حلقے سے تنقید کی گئی، حالاں کہ ایسا کرنے والے ہمیں ڈراتے ہیں،جب کہ ہم صرف بتانے کی کوشش کررہے ہیں، مگر ان کو یہ بھی قبول نہیں ہے۔ انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ملک کے لیے ہماری جو ذمہ داری ہے، ہم اسے ضرور نبھائیں گے، اگران کوہماری شناخت اور وطن سے ہماری محبت برداشت نہیں ہے تو وہ کہیں اور چلے جائیں، میں یہ کہتا ہوں کہ یہ وطن ہمارا ہے، اور ہماری سوچ اور فکر کی اکثریت یہاں رہتی ہے، ہم کہیں نہیں جائیں گے، اگر ان کو بھیجنے کا شوق ہے، وہ خود چلے جائیں۔انھوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کی یہ قدیم روایت رہی ہے کہ اس نے وطن کو ہمیشہ ترجیح دی ہے، جب حضرت فدائے مولانا سید اسعد مدنی ؒ نے ملک و ملت بچاؤ تحریک چلائی تو کچھ ساتھیوں نے پوچھا کہ ملت کو پہلے رکھنا چاہیے، حضرت نے جواب دیا کہ جب ملک نہیں بچے گا تو ملت کیسے بچ پائے گی۔
مولانا محمود مدنی نے مسلمانوں کے آئینی حقوق بالخصوص یوسی سی کے ذریعہ مسلم پرسنل لاء ختم کیے جانے کی کوششوں پر کہا کہ چاہے قانون کوئی بھی بن جائے مسلمانوں کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا، شرط یہ ہے کہ مسلمان پنے عقائد اور شریعت کا پابند رہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ سے منقول ایک اقتباس کا بھی حوالہ دیا۔انھوں نے کہا کہ برداران وطن کے ہر طبقے سے بات چیت اور رابطہ کا سلسلہ جاری رکھیں گے تا کہ ملک کو بچا یا جاسکے، اس سلسلے میں مخالف اور دوست دونوں میں کوئی فرق نہیں کرنا چاہتے ہیں، جمعیۃ علماء اس سلسلے میں کسی ملائمت سے پیچھے ہٹنے والی نہیں ہے۔
اس سے قبل شام میں منعقد ہوئی دوسری نشست میں امیر الہند خامس مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند نے بھی خطاب کیا اور انھوں نے کہا کہ جذباتیت کے مظاہرے اور معاملات پر سڑک پر لانے سے کبھی کسی کا فائدہ نہیں ہو سکتا،جمعیۃ علماء ہند نے بابری مسجد کے سلسلے میں یہی پالیسی اختیار کی تھی، موجودہ تنازع میں بھی یہی پالیسی مناسب ہے۔آخری نشست میں اپنے خصوصی خطاب میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ جو تجاویز منظور ہوئی ہیں، ان پر عمل در آمد کرنے کی بھی کوشش کی جائے، نیز برادران وطن کے ساتھ ہم آہنگی اور ان کی غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے جمعیۃ کے خدام اپنے اپنے علاقوں میں طویل مدتی پالیسی کے مطابق کام کریں۔دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا سفیان قاسمی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہندجیسی بصیرت افروز قیادت موجود ہے،اس نے جو تجاویز پیش کی ہیں، پوری ملت کے اتفاق سے اس کے نتائج بہت اچھے سامنے آئیں گے، انھوں نے کہا کہ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ و ہ شعائر اسلام کو مٹا دے گی، تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہے، دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا راشد اعظمی نے گیان واپی کے حوالے سے کہا کہ جو طاقت مسجد گراتی ہے اللہ ا سے مٹادیتی ہے۔
جمعیۃ علماء آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل نے سرکار کے رویے پر تنقید کی اور کہا کہ مسلمانوں کی خاموشی کو کمزوری سے تعبیر نہ کی جائے۔نومنتخب نائب صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سلمان بجنوری اور نائب امیر الہند مفتی سید سلمان منصورپوری، مولانا رحمت اللہ میر کشمیر ی، مولانا ازہر مدنی، قاری شوکت علی ویٹ، مفتی جاوید اقبال کشن گنجی،مولانا عبدالقادر آسام، مولانا ابراہیم کیرالہ، مولانا اسرارالحق جھارکھنڈ، مولانا محمد ناظم پٹنہ،مولانا منصور کاشفی، مفتی عبدالمومن اگرتلہ،مولانا سعید احمد منی پور،مولانا امین الحق عبدادللہ کانپور،مولاناشبیر مظاہری، مولانا عبدالواحد کھتری، مولانا عبدالقادر آسام، پروفیسر نعمان شاہ جہاں پوری،مفتی جمیل الرحمن پرتاب گڑھی، مولانا عبدالواحد کھتری وغیرہم نے تجاویز ا ور ان کی تائیدات پیش کیں۔
آج کے اجلاس میں خاص طور سے گیان واپی مسجد اور متھرا عیدگا ہ پر تجویز منظور ہوئی جس میں کہا گیا کہ ایودھیا تنازع کی وجہ سے پہلے ہی سماجی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ امن وامان کو بہت نقصان پہنچاہے۔ اب ان تنازعا ت نے مزید محاذ آرائی اور اکثریتی غلبہ کی منفی سیاست کونئے مواقع فراہم کیے ہیں۔
حالاں کہ پرانے تنازعات کو زندہ رکھنے اور تاریخ کی مزعومہ زیادتیوں اور غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کرنے سے ملک کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔(اس لیے)جمعیۃ علماء ہند ارباب اقتدار کو متوجہ کرتی ہے کہ تاریخ کے اختلافات کو زندہ کرنا؛ملک کے امن و امان کے لیے ہرگز مناسب نہیں ہے۔ خود سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے فیصلے میں عبادت گاہ ایکٹ ۱۹۹۱کو آئین کے بنیادی ڈھانچے کی اصل روح بتایا ہے، جس میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ حکومت، سیاسی جماعتوں اورمذہبی گروہوں کو اس معاملے میں گڑے مرد اکھاڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے، تب ہی جاکر آئین کے ساتھ کیے گئے عہد کی پاسداری ہوگی، ورنہ آئین کے سا تھ بہت بڑی بدعہدی کہلائے گی۔
یکساں سول کوڈ سے متعلق تجویز میں واضح طور سے کہا گیا کہ مسلم پرسنل لاء میں جو اُمور شامل ہیں، مثلاً:شادی، طلاق، خلع،وراثت وغیرہ وہ کسی سوسائٹی، شخصی یا گروہ کے بنائے ہوئے نہیں ہیں، نہ وہ تہذیب اور رسم و رواج کے معاملات ہیں، بلکہ وہ بھی نماز، روزہ، حج وغیرہ کی طرح مذہبی احکام کا حصہ ہیں اور قرآنِ کریم واحادیث شریفہ سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ اِس لیے اِسلام سے ثابت شدہ قوانین، یا احکا م میں کسی بھی طرح کی تبدیلی،یا اس پر عمل کرنے سے کسی کو روکنا؛ دین اسلام میں صریح مداخلت اور دستور ہند کی دفعہ25 میں دی ہوئی ضمانتوں کے خلاف ہے۔ اِس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ آئین ہند کی بنیادی دفعات کو سامنے رکھتے ہوئے مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کے سلسلے میں واضح آرڈینیس جاری کیا جائے۔اگر حکومت یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی کوشش کرے گی، تو مسلمانانِ ہند اور دیگر طبقات اِس عظیم ناانصافی کو برداشت نہیں کریں گے، اور اس کے لیے دستوری اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے ہرطرح کے اقدامات پر مجبور ہوں گے۔اس موقع پر جمعیت علمائے ہند مسلمانان ہند کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتی ہے کہ شریعت میں مداخلت کی راہ اسی وقت ہموار ہوتی ہے، جب مسلمان بذات خود شریعت پر عمل کرنے میں مستعد نہ ہوں۔ اگر مسلمان اپنی شریعت کے تمام احکام کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کے لیے مستعد رہیں، تو کوئی قانون ان کو اس سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس لیے تمام مسلمان شریعت اسلامیہ پر پوری طرح ثابت قدم رہیں اور مایوسی و مرعوبیت کے شکار نہ ہوں۔
اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تجویز میں اس لیے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ جلد ازجلد کوئی ایسا قانون وضع کرے جس سے لاء اینڈ آرڈر کی موجودہ بے بسی ختم ہو، اس قسم کی شرمناک ناگفتہ بہ حرکتوں کا انسداد ہو اور پیشوایان مذاہب کا احترام جو تمام انسانوں کا مشترک فرض ہے، محفوظ رہے۔ہندی زبان ا ختیار کرنے سے متعلق تجویز میں مسلمانوں بالخصوص اہل علم حضرات سے اپیل کی گئی کہ اردو کے ساتھ ہندی اور علاقائی زبانوں کا استعمال کریں، اس سلسلے میں ائمہ حضرات،واعظین و مقررین کو خاص طو رسے متوجہ کیاجاتا ہے کہ وہ جمعہ اور دینی جلسوس کی تقاریر و پیغامات ہندی یا دیگر علاقائی زبانوں میں پیش کریں۔اس کے علاوہ کل دیر شام فلسطین اور عالم اسلام سے متعلق تجویز مولانا عبداللہ معروفی، اقلیتوں کے تعلیمی واقتصادی حقوق پر مولانا عبدالرب اعظمی،ماحولیات کے تحفظ سے متعلق تجویز مولانا یحیی کریمی، مسلم اوقاف کے تحفظ سے متعلق تجویز مولانا عبدالقادر آسام اورسالانہ گوشوارہ رپورٹ مولانا نیاز احمد فاروقی نے پیش کیں، ان تائیدات مولانا ظفر الدین ندوی، مولانا کلیم اللہ قاسمی،حاجی محمد ہارون، پیر خلیق صابر، فیصل ہوا ممبئی،مولانا ندیم صدیقی مہاراشٹرا وغیرہ نے کی ۔ اخیر میں جمعیۃ علماء اترپردیش کے ناظم جناب ذہین احمد دیوبند نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا، واضح ہو کہ جناب ذہین احمد اور جمعیۃ علماء یوپی کے ناظم اعلی مولانا سید محمد مدنی اور دیوبند و مغربی یوپی کی جمعیۃ علماء کے ذمہ داروں نے مہمانوں کی خدمت کی ہر ممکن کوشش کی۔
اجلاس میں دو باتیں خاص طور سے قابل ذکر پیش آئیں، اولا یہ کہ نائبین صدر کے لیے مولانا مفتی سلمان بجنوری اور مفتی احمد دیولہ کا انتخاب عمل میں آیا، جب کہ مولانا قاری شوکت علی ویٹ خازن منتخب ہوئے، دوسری طرف سے فدائے ملت مولانا اسعد مدنی ؒ پر پروفیسر عبدالحی مرحوم کی لکھی ہوئی کتاب کا اجرا بھی عمل میں آیا، نیز فدائے ملت ؒ پر مولانا عارف قاسمی استاذدارالعلوم دیوبند اور مولانا حذیفہ کانپوری کی عربی کتاب اور مجموعہ مقالات حضرت مفتی مہدی حسن ؒ کا بھی اجرا عمل میں آیا۔اس موقع پر طبی خدمات غریب نواز ٹرسٹ دیوبند نے پیش۔ آج کے اجلاس میں جمعیۃ علماء سے وابستہ ہم ملک سے کئی اہم شخصیات، دارالعلوم ویوبند، دارالعلوم وقف دیوبند بالخصو ص حسن سمیت بڑے ادراوں کے ذمہ داران بھی رونق اجلاس تھے۔۔۔۔۔۔

مدیر محترم، اس پریس ریلیز کو شائع فرما کر شکر گزارکریں۔

 

نیاز احمد فاروقی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند

 

Every citizen has right to freely abide by his religion. Any attempt to abolish Muslim personal law will not succeed.
If anyone does not like us to follow our religion then he does not deserve to live in this great country: Maulana Mahmood Madani

The governing body meeting of the Jamiat Ulama-i-Hind passed several important resolutions and also issued a declaration

Deoband: May 29: A two-day meeting of the governing body of Jamiat Ulama-i-Hind concluded today at Eidghah Maidan at Deoband. The meeting was chaired by Maulana Mahmood Asad Madani.

The last day saw a number of important resolutions including resolutions on UCC and Gayanvapi mosque and Mathura Eighth. A declaration was also issued in which all Muslims were advised to refrain from fear, despair and sentimentality and work for the betterment of their future.
Maulana Mahmood Asad Madani, President of Jamiat Ulama-i-Hind, in his last presidential address highlighted the importance of sacrifice for the motherland and said that even if our lives are lost for the protection of this country, it will be a matter of pride for us. He told when he spoke of the problems of Muslims, that had been criticized by some quarters. These are the forces who scare us but when we try to speak about them, they do not accept it.
He said in clear terms that we will continue to fulfil our responsibility to the country. If they do not like us to follow our religion, they do not deserve to stay in this country, they should migrate from this great land whose nature is unity in diversity.
“I say that this homeland is equally ours. And the majority of the country believes in idea of unity in diversity, so we are not going to settle in other country , if they are interested in dispatching us, let them go themselves.

On this occasion various great Islamic scholars including Maulana Arshad Madani, president JUH, Maulana Mufti Abul Qassim Nomani, Maulana Sufyan Qasmi waqf Darul Uloom Deoband, Maulana Hakeemuddin Qasmi, JUH General Secretary, Maulana Badruddin Ajmal also delivered speeches.

Jamiat resolution on Gayanvapi mosques expresses deep concern and disgust over the ugly attitude of forces hostile to the peace and tranquillity of the country as well as political parties patronizing them for repeatedly raking up controversy regarding the old places of worship. Gyanvapi Mosque, Mathura Eidghah and other mosques are currently under such a hate campaign. This will result in disturbing the peace, order and integrity etc. of the country.

The Ayodhya issue has already severely damaged social harmony and the peaceful communal fabric of the country. Now, these conflicts will provide fresh impetus for further confrontation and the negative politics of majority domination. This session of Jamiat Ulama-i-Hind draws the attention of the ruling dispensation that reviving the differences of history will not be conducive to the peace and order of the country. The Supreme Court in its ruling about Babri Masjid has described the Worship Act as the basic spirit of the constitution of India. This decision of the Apex court explicitly conveys the message that the government, political parties and religious groups should keep away from reviving the controversial issues of the past. Only then it will redeem our pledges to the constitution, otherwise, it will be called great disloyalty to the constitution.
ON UCC, the Jamiat said that Muslim personal law such as marriage, divorce, khula, inheritance etc. are not framed by any society, individual or group etc. Nor are they parts of culture and customs etc. But they are essential parts of Islam like prayers, fasting and Hajj etc. derived from the Holy Qur'an and hadiths. Therefore, any change in the rules or regulations sanctioned by Islam or preventing anyone from following them is against the basic principles of Islam and sheer interference in the provision guaranteed in Article 25 of the Constitution of India. But the present government intends to abolish Muslim personal law by enacting a uniform civil code sidestepping the true spirit of the country's constitution.
This session of the Jamiat Ulama-i-Hind warns the Government of India that Muslims of the country cannot accept any change in Muslim Personal Law. Therefore, we demand that a clear ordinance be issued regarding the protection of Muslim personal law keeping in view the basic provisions of the Constitution of India. In other resolutions, the Jamiat also demands stringent law to deal with issues of insult to the prophet and great personalities of any religion.
Apart from this, the Jamiat Governing body meeting also elected Maulana Mufti Salman Bajnoori and Mufti Ahmad Deola as Vice President of Jamiat, while Maulana Qari Shaukat Ali Wait was elected as treasurer. The book written by the late Prof. Abdul Hai on the life of Maulana Asad Madani and an Arabic book on the same personality were also inaugurated.

 

प्रेस विज्ञप्ति

प्रत्येक नागरिक को अपने धर्म का स्वतंत्र रूप से पालन करने का अधिकार, मुस्लिम पर्सनल लॉ को खत्म करने का कोई भी प्रयास सफल नहीं होगा

अगर किसी को हमारे धर्म का पालन करना पसंद नहीं है तो वह बहुलता में एकता के आधार स्थापित पर इस महान देश से पलायन करे: मौलाना महमूद मदनी

जमीअत उलेमा-ए-हिंद के प्रंबंधन कमेटी की बैठक में कई अहम प्रस्तावों को मंजूरी दी गई, मौजूदा हालात पर एक अहम घोषणापत्र भी जारी किया गया

नई दिल्ली : 29 मई 2022

जमीअत उलेमा-ए-हिंद के केंद्रीय प्रंबंधन कमेटी की दो दिवसीय बैठक आज देवबंद के उस्मान नगर (ईद गाह मैदान) में दारुल उलूम देवबंद के कुलपति मुफ्ती अबुल कासिम नोमानी की दुआ के साथ संपन्न हुई। बैठक की अध्यक्षता जमीअत उलेमा-ए-हिंद के अध्यक्ष मौलाना महमूद असद मदनी ने की, जबकि जमीयत उलेमा-ए-हिंद के महासचिव मौलाना हकीमुद्दीन कासमी ने इसका संचालन किया। अंतिम दिन, कई महत्वपूर्ण प्रस्ताव पारित किए गए जिनमें संवैधानिक अधिकारों से वंचित करने और समान नागरिक संहिता के कार्यान्वयन, ज्ञान वापी मस्जिद और मथुरा ईदगाह, पैगंबर हज़रत मुहम्द ( सल्ल) का के बारे में अपमानजनक शब्द और हिंदी भाषा को अपनाने के संबंध में प्रस्ताव प्रमुख हैं।इसेक अलावा एक घोषणापत्र भी जारी किया गया था जिसमें सभी मुसलमानों को डर, निराशा और भावुकता से दूर रहने और अपने भविष्य की बेहतरी के लिए काम करने की सलाह दी गई । इस बैठक में इस बात को भी दोहरा गया कि मुसलमान हमेशा कुर्बानी देने के लिए तैयार रहते हैं और वे इस मामले में किसी से कम नहीं हैं।

जमीअत उलेमा ए हिन्द के अध्यक्ष, मौलाना महमूद मदनी ने अधिवेशन के दूसरे व अंतिम दिन देश के मुसलमानों से अपील कि वे देश में फासीवादी शक्तियों के मंसूबों का मुकाबला सकारात्मक ऊर्जा के साथ करें। मुसलमानों को बार बार देश से बाहर भेजने की बातें करने वालों को आड़े हाथों लेते हुए मौलाना महमूद मदनी ने कहा कि हम नहीं जायेंगे, जिसे हमें भेजने का शौक है वो यहां से चला जाए। मौलाना ने कहा जो लोग जहर उगलते हैं वो दिखाई नहीं देते लेकिन जो जहर ख़त्म करना चाहता है उसे ही दोषी करार दिया जा रहा है। मुसलमान देश का दूसरा सबसे बड़ा बहुसंख्यक हैं और नफरत के सौदागर आज भी अल्पसंखयक हैं। दो दिवसीय अधिवेशन के समापन समारोह के अवसर पर मौलाना महमूद मदनी ने कहा राष्ट निर्माण के लिए जो लोग हमख्याल हैं उनको साथ लेना है। समझदारी, हिम्मत और दीर्घकालिक रणनीति के तहत नफरत के सौदागरों को हराना है। जमीअत अध्यक्ष ने समान आचार संहिता लागू करने के कुछ राज्य सरकारों के मंसूबों पर भी कड़ी आपत्ति जताई। आपने कहा कि इन घोषणाओं से डरने की ज़रूरत नहीं है। आप ने मुस्लामानों से कहा कि वो धर्म के प्रति आस्थावान बनें और दृढ़ता का परिचय दें।

इससे पहले शाम में हुये दूसरे सत्र में अमीर-उल-हिंद मौलाना सैयद अरशद मदनी ने भी सभा को संबोधित किया और कहा कि उत्तजित हो कर मुद्दों को सड़कों पर लाने से कभी किसी को फायदा नहीं हो सकता। पिछले सत्र में दारुल उलूम देवबंद के कुलपति मुफ्ती अबुल कासिम नोमानी ने कहा कि जिन प्रस्तावों को मंजूरी मिली है, उन्हें लागू कर दिया गया है. देश के भाइयों के साथ तालमेल बिठाने और उनकी गलतफहमियों को दूर करने का भी प्रयास किया जाना चाहिए. जमीअत को अपने-अपने क्षेत्र में दीर्घकालिक नीति के अनुसार काम करना चाहिए।मौलाना सुफियान कासमी, दारुल उलूम वक्फ देवबंद के कुलपति ने कहा कि भारतीय उलेमा ही एक कुशल नेतृत्व प्रदान करते है। उन्होंने कहा कि यहाँ जो प्रस्ताव रखे गये हैं, उनके बहुत अच्छे परिणाम होंगे। ज्ञान वापी के हवाले से दारुल उलूम देवबंद के उप कुलपति मौलाना राशिद आज़मी ने कहा कि अगर सरकार को लगता है कि इससे इस्लाम के सिद्धांत खत्म हो जाएंगे तो यह उनकी बहुत बड़ी भूल है। मस्जिद को नष्ट करने वाली शक्ति को अल्लाह ने हटा दिया है।

जमीअत उलेमा असम के अध्यक्ष मौलाना बदरुद्दीन अजमल ने सरकार के रवैये की आलोचना करते हुए कहा कि मुसलमानों की चुप्पी को कमजोरी नहीं समझा जाना चाहिए। जमीअत उलेमा-ए-हिंद के नव निर्वाचित उपाध्यक्ष सलमान बिजनौरी और अमीरुल हिंद मौलाना सलमान मंसूरपूरी, मौलाना रहमतुल्लाह मीर कश्मीरी, मौलाना अजहर मदनी , कारी शौकत अली, मुफ्ती जावेद इकबाल किशन गंज, मौलाना अब्दुल कादिर असम, मौलाना इब्राहिम केरल, मौलाना इसरारुल हक झारखंड, मौलाना मुहम्मद नाजिम पटना, मौलाना मंसूर काशफी, मुफ्ती अब्दुल मोमिन अगरतला, मौलाना सईद अहमद मणिपुर, मौलाना अमीन-उल- हक अब्दुल्ला कानपुर, मौलाना शब्बीर मजाहेरी, मौलाना अब्दुल वाहिद खत्री, मौलाना अब्दुल कादिर असम, प्रोफेसर नोमान शाहजहाँ पुरी, मुफ्ती जमील-उर-रहमान प्रताप गढ़ी, और अन्य ने अपने सुझाव और समर्थन प्रस्तुत किए।

इससे पहले इस अधिवेशन में बहुप्रतीक्षित ज्ञान वापी मस्जिद, मथुरा ईदगाह और अन्य मस्जिदों के मामले में पैदा किए जा रहे विवाद पर भी सरकार और साम्प्रदायिक शक्तियों को कटघरे में खड़ा किया गया। अधिवेशन में पारित प्रस्तावमें कहा गया है कि, जमीअत उलेमा-ए-हिंद की यह बैठक प्राचीन इबादतगाहों पर बार-बार विवाद खड़ा कर के देश में अमन व शांति को ख़राब करने वाली शक्तियों और उनको समर्थन देने वाले राजनीतिक दलों के रवैये से अपनी गहरी नाराज़गी व नापसंदीदगी ज़ाहिर करती है। बनारस की ज्ञानवापी मस्जिद,मथुरा की एतिहासिक ईदगाह और दीगरमस्जिदों के खिलाफ़ इस समय ऐसे अभियान जारी हैं, जिससे देश में अमन शांति और उसकी गरिमा और अखंडता को नुकसान पहुंचा है। अब इन विवादों को उठा कर साम्प्रदायिक टकराव और बहुसंख्यक समुदाय के वर्चस्व की नकारात्मक राजनीति के लिए अवसर निकाले जा रहे हैं।

प्रस्ताव में कहा गया है कि, निचली अदालतों के आदेशों से विभाजनकारी राजनीति को मदद मिली है और ‘पूजा स्थल (विशेष प्रावधान) एक्ट 1991’ की स्पष्ट अवहेलना हुई है जिस के तहत संसद से यह तय हो चुका है कि 15 अगस्त 1947 को जिस इबादतगाह की जो हैसियत थी वह उसी तरह बरक़रार रहेगी।
समान आचार संहिता पर प्रस्ताव पर अपने संबोधन में मौलाना अबू सूफियान कासमी, मोहतमिम, दारुल उलूम देवबंद, वक्फ, ने कहा कि, मुसलमानों के हौसले पस्त करने के लिए ये तरीके अपनाए जा रहे हैं। मुसलमानों को हर चैलेंज का मुकाबला करना चाहिए। आपने कहा कि मुस्लिम पर्सनल लॉ में सरकार हस्तक्षेप कर रही है। इसे कुबूल नहीं किया जाएगा। मुसलमान इस्लाम पर मजबूती से अमल करें अपने ईमान में और दृढ़ता लाएं।

प्रस्ताव में कहा गया है कि, जमीअत उलेमा-ए-हिंद सभी मुसलमानों को ये स्पष्ट करना जरूरी समझती है कि शरीअत में दखलंदाजी उसी वक्त होती है जब मुसलमान स्वयं शरीअत पर अमल नहीं करते। अगर मुसलमान शरीअत के प्रावधानों को अपनी ज़िंदगी में लाने की कोशिश करेंगे, इस पर अमल करेंगे तो कोई कानून उन्हें शरीअत पर अमल करने से नहीं रोक पायेगा। इसलिए तमाम मुसलमान इस्लामी शरीअत पर जमे रहें, और किसी भी तरह से मायूस या हतोत्साहित न हों।

इस अधिवेशन में इस्लाम धर्म और उसके अंतिम पैगंबर हजरत मोहम्मद सल्लo के लिए की जाने वाली टिप्पणियों पर गहरा रोष प्रकट किया गया। इस संबंध में पारित प्रस्ताव में कहा गया कि जमीअत उलेमा-ए-हिंद की यह बैठक बड़ी चिंता व्यक्त करती है कि धर्म के महापुरुषों , विशेष रूप से पैगंबर मुहम्मद (सल्ल्o) के नाम पर घृणित और निन्दात्मक बयानों, लेखों और नारों की एक श्रृंखला फैलाई जा रही है। जो देश के जागरूक व्यक्तियों और समूहों के लिए एक बहुत दुःख की बात है। जमीअत उलेमा-ए-हिंद की यह बैठक मांग करती है कि सरकार जल्द से जल्द ऐसा कानून बनाए जिससे मौजूदा कानून-व्यवस्था की अराजकता खत्म हो, इस तरह के शर्मनाक अनैतिक कृत्यों पर अंकुश लगे और सभी धर्मों के महापुरुषों का सम्मान हो।

इस अधिवेशन में हिंदी भाषा अपनाने पर भी बल दिया गया। प्रस्ताव में कहा गया कि उर्दू से हमारा सामुदायिक और राष्ट्रीय संबंध है, यह हमारी बौद्धिक, ऐतिहासिक और धार्मिक विरासत की संरक्षक है, और यह मुसलमानों और देश के नागरिकों की मातृभाषा भी है। लेकिन इसका यह अर्थ नहीं है कि हम बंगाली, तमिल, मलयालम, पंजाबी, गुजराती, असमिया आदि से परहेज़ करें। बल्की यह भी हमारी ही अपनी भाषाएं हैं और हमारे देश के अन्य भाइयों और बहनों के साथ संचार, आपसी समझ और संबंधों को मजबूत करने में बहुत ही सहायक हैं।

अधिवेशन के समापन पर घोषणा पत्र जारी किया गया। घोषणा पत्र जारी करते हुए मौलाना मो सलमान बिजनौरी ने कहा कि वर्तमान समय में हमारा देश एक संवेदनशील दौर से गुजर रहा है। एक तरफ कुछ ताकतें देश के दूसरे सबसे बड़े वर्ग मुसलमानों को डराने या निराश करने का प्रयास कर रही हैं। इसके परिणामस्वरूप कुछ लोगों की भावनाएं आहत हो रही है तो कुछ लोगों में भय की स्थिति जन्म ले रही है। दूसरी ओर वही ताकतें झूठे प्रोपेगंडे द्वारा देश के अन्य वर्गों से मुसलमानों को भयभीत करके घृणा पैदा कर रही हैं। इन परिस्थितियों में मुसलमानों को कुरान, हदीस और सीरत तैय्यबा (पैगंबर मोहम्मद के जीवन) के आलोक में अपने लिए वह मार्ग निर्धारित करना आवश्यक है जो भविष्य में मुसलमानों और सभी समुदायों के लिए अमन-शांति और आपसी सौहार्द्र का माध्यम बने।

बैठक में दो बातें सामने आईं, पहला मौलाना मुफ्ती सलमान बिजनौरी और मुफ्ती अहमद देवला का उपाध्यक्ष के रूप में चुनाव हुआ, जबकि मौलाना कारी शौकत अली कोषाध्यक्ष चुने गए। हज़रत मौलाना असद मदनी मरहूम पर प्रो अब्दुल हई द्वारा लिखी गई एक पुस्तक का भी विमोचन किया गया। आज की बैठक में जमीअत उलेमा, दारुल उलूम देवबंद, दारुल उलूम वक्फ देवबंद से जुड़ी देश की कई महत्वपूर्ण हस्तियां व अन्य जिम्मेदार व्यक्ति भी मौजूद थे।