A Delegation of Muslim Intellectuals led by Maulana Mahmood Madani met the Home Minister of India

صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی قیادت میں مسلم رہ نمائوں کے ایک وفد کی وزیر داخلہ حکومت ہند سے ملاقات

اسلامو فوبیا، ماب لنچنگ، مسلم ریزرویشن، کشمیر سمیت ایک درجن سے زائد مسئلوں پر گفتگو

نئی دہلی ۵؍ اپریل ۲۳

مسلم مذہبی و ملی رہ نماؤںکے ایک ۱۶؍ رکنی وفد نے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی قیادت میں منگل دیر شام امت شاہ وزیر داخلہ حکومت ہند سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور ان کے سامنے ملک میں ہورہے فرقہ وارانہ فسادات، منافرتی مہم، اسلاموفوبیا،ماب لنچنگ،یکساں سول کوڈ، دینی مدارس کی خود مختاری،کرناٹک میں مسلم ریزرویشن،کشمیر کی موجودہ صورت حال، آسام میں جبری انخلا، وقف جائیداد کا تحفظ جیسے مسائل تحریری شکل میں پیش کئے۔ ایک گھنٹے سے زائد ہوئی ملاقات میں مولانا کلیم صدیقی اور عمر گوتم کی ضمانت کا مسئلہ بھی پیش ہوا۔

اس موقع پر اپنے تمہیدی کلمات میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی نے کہا کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو مایوسی کی غار میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے اور نفرت و فرقہ پرستی کے اعلانیہ اظہار کے ذریعہ ملک کے حالات کو آلودہ کیا جارہاہے، جن کے باعث معاشی وتجارتی نقصان کے علاوہ ملک کی نیک نامی بھی متاثر ہورہی ہے۔ایسے حالات میں ہم آپ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان حالات کے تدارک کے لیے فوری قدم اٹھائیں گے ۔

وزیر داخلہ نے وفد کے ذریعہ پیش کردہ نکات مطالبات کو بغور پڑھا اور ملک کے فرقہ وارانہ حالات سے متعلق کہا کہ اس بار رام نومی تہوار کے موقع پر جو مذہبی کشیدگی اور خون خرابہ ہوا ہے، اس پر ہمیں بھی تشویش ہے، جن ریاستوں میں ہماری سرکاریں نہیں ہیں،و ہاں ہم نے گورنر یا وزیر اعلی کے ذریعہ اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے اور جہاں ہماری سرکاریں ہیں، وہاں جو بھی واقعات ہوئے ہیں، جانچ کے بعد مجرموں کے خلاف کٹھور کارروائی کی جائے گی۔

وزیر داخلہ نے ماب لنچنگ کے واقعات کے سلسلے میں کہا کہ ماب لنچنگ کے واقعات ملک کے کسی بھی حصے میں ہوئے ہوں ، ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ قتل کی صورت میں کیا ۳۰۲ کے تحت قتل کا مقدمہ درج ہوا یا نہیں ، اگر نہیں ہوا ہے تو آپ ہمیں لکھ کر بھیجیں، ہم فورا ً اس کو یقینی بنائیں گے۔ اس سلسلے میںجلد ایسے واقعات کی فہرست بنا کر وزیر داخلہ کو بھیجا جائے گا۔ وفد نے خاص طور سے میوات میں پہ درپہ ہوئے واقعات کا بھی تذکرہ کیا اور بتایا کہ وہاں گئو رکشا کے نام پر شرپسندوں کا ایک گروہ ہے، جیسا کہ آج تک ٹی وی کی اسٹنگ آپریشن میں بھی خلاصہ ہوا ہے، اس لیے اس پر قد غن لگانے کی ضرورت ہے، جس سے ہوم منسٹر نے اتفاق ظاہر کیا۔

میڈیا کے ذریعہ مسلم قوم کو نشانہ بنانے پر انھوں نے کہا کہ میڈیا کے شکار تو وہ خود بھی ہیں، اسلامی مدرسوں کے سلسلے میں کہا کہ سرکار کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ مدرسوں میں قرآن و حدیث کی تعلیم دی جائے، لیکن ان مدرسوں میں بچوں کو جدید تعلیم بھی ملنی چاہیے۔وفد کے ایک رکن نے مسلم طلبہ کے لیے مولانا آزاد اسکالر شپ کا بھی مسئلہ اٹھایا ۔

وزیر داخلہ نے کرناٹک میں مسلم ریزرویشن ختم کیے جانے کے سلسلے میں کہا کہ جن مسلمانوں کو پسماندگی کی بنیاد پر ریزرویشن مل رہا تھا ،و ہ ملتا رہے گا ، البتہ پہلے کی سرکاروں نے سارے مسلمانوں کو پسماندہ بنا دیاتھا ، اس لیے جو پسماندہ برادریوں سے تعلق نہیں رکھتے ، ان کو ای ڈبلیو ایس کٹیگری میں ریزرویشن ملے گا ۔اس سلسلے میں جو غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے، ہم اس کی خود جلد وضاحت کریں گے، نیز کرناٹک سرکار کے وزیر قانون کے ذریعہ بھی وضـاحت کرائیں گے ۔

کشمیر میں دفعہ 370ہٹائے جانے پر جب وفد نے تنقید کی تو وزیر داخلہ نے کہا کہ اس عمل کو ہندو مسلمان کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے، یہ اسٹیٹ پالیسی کا حصہ ہے، لیکن جہاں تک وہاں کے عوام پر افسران کی طرف سے ظلم و ستم کی شکایت ہے، تو اس سلسلے میں کوئی خاص معاملہ ہوتو ہمارے علم میں لائیے ہم سخت کارروائی کریں گے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ان کی سرکار کسی بھی کمیونٹی سے تفریق نہیں کرتی۔ سرکار کی پالیسا ں اور اسکیمیں مسلمان ہندو سب کو شامل ہیں، ہم الگ سے کسی کے لیے اسکیم نہیں بناتے۔وفد نے ایک بار پھر دوہرایا کہ سرکار کی اسکیموں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ہیٹ کرائم اور اسلامو فوبیاکے واقعات نے ملک کی نیک نامی کو کافی متاثر کیا ہے، اس سلسلے میں سرکار کو اپنی آئینی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اقدام کرنا چاہیے۔

اس وفد میں جو شخصیات شامل تھیں، وہ حسب ذیل ہیں:

 

مولانا محمود اسعد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند، مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند، مولانا شبیر ندوی، صدر ناصح ایجوکیشن ٹرسٹ بنگلور، کمال فاروقی ممبر آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ، پروفیسر اختر الواسع صدر خسرو فاؤنڈیشن دہلی، جناب پی اے انعامدار چیئرمین ایم سی ای سوسائٹی پونہ مہاراشٹر، ڈاکٹر ظہیر قاضی صدر انجمن اسلام، ممبئی،مولانا محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعیۃ علماء ہند، مولانا ندیم صدیقی صدرجمعیۃ علماء مہاراشٹر، مفتی افتخار احمد قاسمی صدر جمعیۃ علماء کرناٹک، مفتی شمس الدین بجلی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء کرناٹک، مولاناعلی حسن مظاہری صدرجمعیۃ علمائہریانہ-پنجاب-ہماچل پردیش،مولانا یحییٰ کریمی جنرل سکریٹری،جمعیۃعلماء ہریانہ-پنجاب-ہماچل پردیش، مولانا محمد ابراہیم صدر جمعیۃ علماء کیرالہ، حاجی حسن احمد جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء تمل ناڈو، مولانا نیاز احمد فاروقی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند

نوٹ : وزیر داخلہ کو مطالبات کی جو کاپی دی گئی ہے ، وہ منسلک ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مدیر محترم !

اس پر یس ریلیز کو شائع فرما کر شکر گزار کریں

نیاز احمد فاروقی

سکریٹری جمعیۃ علماء ہند

 04.04.2023

عزت مآب جناب امت شاہ جی

وزیر داخلہ حکومت ہند، نئی دہلی

سب سے پہلے ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے ملک کے مفاد سے وابستہ درج ذیل امور پر گفتگو کے لیے ہمیں اپنا قیمتی وقت دیا ہے، ہم پر امید ہے کہ آپ درج ذیل مسائل پر مخلصانہ اور ہمدردانہ سوچ کے ساتھ غور کریں گے اور اس کے بموجب راشٹریہ ہت میں حل نکالیں گے۔ ہم ایک بار پھر آپ کے تہہ دل سے مشکور ہیں۔

1. ملک میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات

مذہبی تہوار کے موقع پر ان دنوں ملک کے مختلف حصوں میں جس طرح تشدد کا اظہار کیا گیا وہ ہم سب کے لیے تشویش کی بات ہے۔اس دیش کی دھرتی پرجہاں ترقی اور اتحاد کا مظاہرہ ہونا چاہیے،آج وہاں مذہبی اشتعال انگیزی، دھمکیاں اور ایک دوسرے پر حملے کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں،جو بہت ہی دکھ اور قلق کی بات ہے۔ اس سے ملک کی نیک نامی متاثر ہو رہی ہے۔ ہم آپ سے خصوصی گزارش کرتے ہیں، ایسے حالات کے سد باب کے لیے سرکار کوئی ٹھوس اور ضروری قدم اٹھائے۔

2. ملک میں بڑھتی ہوئی منافرتی مہم

آج ہمارے ملک میں اِسلامو فوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و اشتعال انگیزی کے واقعات میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے۔جن کے باعث ملک کے معاشی وتجارتی نقصان کے علاوہ ملک کی نیک نامی بھی متاثر ہورہی ہے۔ایسی صورت حال میں ملک کی سالمیت اور نیک نامی کے حوالے سے ہم حکومت ہند کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ:

(۱) وہ فوری طور سے ایسے اقدامات پر روک لگائے، جو جمہوریت، انصاف و مساوات کے تقاضوں کے خلاف اور اِسلام دشمنی پر مبنی ہیں۔

(۲) نفرت پھیلانے والے عناصر اور میڈیا پر بلاتفریق سخت کارروائی کی جائے بالخصوص سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کی روشنی میں لا پروائی برتنے والی ایجنسیوں پر ایکشن لیا جائے اورشرپسندوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

(۳) لاء کمیشن کی سفارش کے مطابق تشدد پر اکسانے والوں کو خاص طور پر سزا دینے کے لیے ایک علاحدہ قانون وضع کیا جائے اور سبھی اقلیتوں؛ بالخصوص مسلم اقلیت کو سماجی واقتصادی طور پر الگ تھلگ کرنے کی کوششوں پر روک لگائی جائے۔

(۴) ملک میں ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے’نیشنل فاؤنڈیشن فار کمیونل ہارمونی‘(National Foundation for Communal Harmony) اور’نیشنل انٹیگریل کاؤنسل’National Integral Council))کو فعال بنایا جائے اور اس کے تحت بقائے باہم سے متعلق پروگرام اور مظاہرے منعقد کیے جائیں، بالخصوص سبھی مذاہب کے بااثر افراد کی مشترکہ میٹنگوں اور کانفرنسوں کا اہتمام کیاجائے

3. ماب لنچنگ کے واقعات

ہمارے ملک میں ماب لنچنگ کے ذریعہ کسی بھی شہری کو نشانہ بنانے کی ایک روایت چل پڑی ہے، حال میں میوات میں دو مسلم نوجوانوں کو، اسی طرح مدھیہ پردیش میں دو قبائلیوں اور کل گزشتہ کرناٹک میں جس طرح ایک مسلم نوجوان کو بھیڑ نے مذہب اور ذات کے نام پر قتل کردیا، اس طرح کے واقعات بھارت کے شہری کے لیے بہت ہی دل آزار ہیں، ہماری سرکاروں کو اسے روکنے کیلیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے اور قومی سطح پر ایک میکانزم تیار کرنا چاہیے۔

4. یکساں سول کوڈ

یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ملک کے گوناگوں سماجی گروہوں،قوموں، ذاتوں اور سبھی طبقات سے ہے۔ہمارا ملک کثرت میں وحدت کی سب سے اعلیٰ مثال ہے، ہماری تکثیریت کو نظر انداز کرکے جو بھی قانون بنایا جائے گا، اس کا براہ راست اثر ملک کی وحدت اور سالمیت پر پڑے گا۔ یہ اپنے آپ میں یکساں سول کوڈ کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

مسلم پرسنل لاء کے تئیں مسلمانوں کی زیادہ حساسیت کا سبب اسلامی شریعت کا زندگی کے تمام شعبوں اور سماجی اور اخلاقی پہلوؤں پر محیط ہونا ہے، قرآن پاک کے احکامات خالق کائنات کے وضع کردہ ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

مسلم پرسنل لاء یا مسلم عائلی قوانین کو ختم کرنے کی کوشش جمہوریت کی روح اور دستور ہند میں دی گئی ضمانت کے خلاف ہے،جب اس ملک کا آئین وضع کیا جارہا تھا، تودستور ساز اسمبلی نے یہ ضمانت دی تھی کہ مسلمانوں کے مذہبی امور بالخصوص ان کے شخصی قوانین کے ساتھ کوئی بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔دستور ہند کی دفعہ ۲۵ تا ۲۹کی غرض و غایت یہی ہے۔

5. مدارس اسلامیہ کی آزادی و خود مختاری

اسلامی مدارس غریب اور پسماندہ ہندستانی مسلمانوں کی تعلیم کا سب سے اہم ذریعہ ہیں مدارس سے وابستہ علماء اور فضلاء نے وطن کی آزادی اور تعمیر و ترقی میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ملک کی سالمیت، تحفظ اور نوجوانوں میں ملک کے دفاع اور حب وطن کا جذبہ پیدا کرنے میں ان کا مثالی کردار ہے- یہ مدرسوں کا وجود دیش کی سنسکرتی کے لیے قابل فخرسرمایہ ہے۔

مدارس کے نظام میں سرکاری دخل اندازی ہمیں ہرگز منظور نہیں، ان کی آزادی اورخود مختاری دستور کے تئیں ہمارا بنیادی حق ہے اور ہم اس پر کوئی مصالحت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔لیکن اسی کے ساتھ طلبہ کے تحفظ اور ان کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ہم ہر ضرور اقدام کے لیے آمادہ ہیں۔

6. میڈیا میں اسلام اور مسلم مخالف رویے کی روک تھام

ملک کی سرکاروں، تحقیقاتی ایجنسیوں اور سائبر کرائم سیکشن کو متوجہ کیاجاتا ہے کہ وہ کسی کی طرف سے باضابطہ شکایت کا انتظار کیے بغیر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف ازخود کریمنل مقدمات درج کریں اور دہشت گردی کی روک تھام کی طرح کوئی مو?ثر واچ ڈاگ میکانزم مرتب کریں تا کہ ایسے مواد کو فوری طور سے ہٹا یا جاسکے۔

(۶) ایسی جماعتوں،گروہوں اور پیجز کی نشاندہی کی جائے جن کی طرف سے لگاتار ایسے مذہبی اشتعال انگیزی کے مواد شائع ہوتے ہیں اور ان پر مکمل پابندی عائد کی جائے

7. کرناٹک میں ریزرویشن ختم کرنے کا معاملہ

صوبہ کرناٹک کی حکومت کی طرف سے پسماندہ مسلمانوں کے لیے ۲۷? سالوں سے جاری ریزرویشن ختم کیا جانا ملک کی جامع ترقیاتی پالیسی کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایک طرف ملک کے وزیر اعظم نے پسماندہ مسلمانوں کی خیر خواہی باتیں کی ہیں، جن کا ہم نے اپنے اجلاس میں استقبال بھی کیا تھاتو دوسری طرف ان کی سرکار کرناٹک میں پسماندگی کی بنیاد پر دیے گئے ریزرویشن مسلمانوں سے چھین کر دوسرے طبقوں میں بانٹ رہی ہے۔

8. وقف جائیدادوں کا تحفظ

وقف جائیدادوں کی حفاظت صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ سرکار کی اولین ذمہ داری ہے۔ ہماری سرکاروں کو ملک کے اتنے بڑے وسائل کی حفاظت کے لیے ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک مطالبہ یہ ہے کہ SGPC کے طرز پر وقف بورڈ کو خود مختار ادارہ بنایا جائے۔

محکمہ اَوقاف اور محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام جو ویران اور غیر آباد مساجد ہیں، بلا تاخیر ان کو واگزار کیا جائے اور ان میں نماز کی اجازت دی جائے۔نیز جہاں نمازیں ہو رہی ہیں، ان میں نماز سے نہ روکا جائے۔

9. کشمیر کی موجودہ صور ت حال

کشمیر کی موجودہ صورت حال دیش کے مفاد کے اعتبار سے ہرگز اطمینان بخش نہیں ہے۔ دفعہ ۳۷۰ کو ہٹانے کے بعد سرکار کو چاہیے تھا کہ وہ کشمیریوں کے بنیادی حقوق، تعلیم و ترقی اور کشمیری شناخت، تہذیب وکلچر کے فروغ کے لیے خصوصی توجہ دیتی،لیکن اس کے بجائے مختلف سرکاری اور عوامی عہدوں پر جن افسران کا تقرر کیا گیا ہے، ان کی حالیہ کارکردگیوں اور فرقہ وارانہ اقدامات سے صرف کشمیری عوام ہی نہیں بلکہ ہم سب بے حد آزردہ ہیں۔دفعہ ۳۷۰ کو ہٹانے کے لیے غیر منصفانہ طریقہ اختیار کرنا خود اپنے آپ میں کوئی دانشمندانہ قدم نہیں تھا اور ہم نے اس کی طرف اس وقت بھی توجہ دلائی تھی۔ اب ہم ایک بار پھر سرکار سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ پوری اپنائیت کا سلوک کیا جائے اور دستور کے مطابق ان کو منصفانہ حق دیا جائے۔

10. آسام میں جبری انخلا کا معاملہ

آسام میں سرکاری زمینوں کو خالی کرانے کے نام پر جس غریبوں کو پریشان کیا جارہا ہے اور ان کے ساتھ غیر انسانی رویہ اختیار کیا جارہا ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ ہم سرکار سے مطالبہ کرتے ہیں ان کی بازآبادکاری کے لیے قدم اٹھانا چاہیے ا ور ان کے ساتھ دھکمیوں کے بجائے انسانی سلوک کا معاملہ کرنا چاہیے۔

نیز گزشتہ چند دنوں سے حکومت آسام کم سنی کی شادی کے نام پر ہزاروں لوگوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ ہم اپنا یہ موقف واضح کردینا چاہتے ہیں کہ کم سنی کی شادی کے نام پر گرفتاری مسئلہ کا حل نہیں؛ بلکہ اس سے مزید مسائل پیدا ہورہے ہیں اور بالخصوص لڑکیوں کی زندگیاں تباہ ہورہی ہیں، اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ اس سلسلے میں آسام سرکار کچھ ایسا اقدام کرے،جس سے غربت، جہالت اور بچھڑاپن -جوکم سنی کی شادی کی بنیادی وجوہات ہیں -ان کے خاتمے کے لیے مفید اور مو?ثر لائحہ? عمل ثابت ہوسکے۔

11. مولانا کلیم صدیقی و دیگر کی رہائی

مولانا کلیم صدیقی، محمد عمر گوتم اور ان کے دوسرے ساتھی گزشتہ دو سالوں سے جیل میں بند ہیں، ان پر بنیادی طور سے تبدیلی مذہب کا الزام ہے۔ اس سلسلے میں عدالتیں اپنا کام کررہی ہیں، مگر اس قدر عرصہ گزرنے کے باوجود ضمانت نہ دیاجانا، اس کے باوجود کہ اس درمیان اس سے بھی زیادہ خطرناک مقدمات میں لوگوں کو ضمانت ملی ہے، انصاف کے تقاضوں سے میل سے نہیں کھاتا۔

اس موقع پر ہم آپ سے خاص طور سے گزارش کرتے ہیں کہ ان کی ضمانت میں تعاون کریں اور سرکاری سطح پر جو رکاوٹیں ہیں، ان کو ختم کرنے کی زحمت گوارا کریں ۔

12. ہم جنسی کی شادی کا معاملہ

ہم جنسی کی شادی سے متعلق سرکار نے سپریم کورٹ میں جو رخ اختیار کیا ہے، ہم اس کی ستائش کرتے ہیں، جمعیۃ علماء ہند نے بھی عدالت عظمی میں اس غیر فطری شادی کے خلاف عرضی داخل کی ہے۔

13. ترکی اور شام میں زلزلہ

ترکی اور سیریا میں آئے بھیانک زلزلہ متاثرین کے لیے بھارت سرکار نے جس طرح دل کھول کر مدد کی ہے، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں، اس کی وجہ سے دنیا میں بھارت کا سر اونچا ہوا ہے۔

14. سدبھاؤ نامنچ کا قیام

برادران وطن کے درمیان نفرت کو دورکرنے کے لیے اورایک دوسرے کو قریب لانے کے لیے صرف گفت و شنید ہی کافی نہیں بلکہ ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے جہاں مختلف قومو ں اور برادریوں کے لوگ سماجی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھ سکیں، اسی سوچ کے تحت جمعیۃ علماء ہند نے سدبھاونا منچ کے قیام کا فیصلہ کیا تھا۔ اس منچ کے تحت تا حال ملک کے طول وعرض میں تقریباً دو سو کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں، جن میں الحمدللہ مختلف مذاہب کے رہ نماؤن کے ساتھ ان کے عوام نے بھی شرکت کی۔ان کانفرنسوں میں گؤ کشی، لاؤڈ اسپیکر کے استعمال اور مقامی مذہبی تنازعات کے علاوہ ماحولیات کے تحفظ، شجرکاری،پانی کے استعمال میں احتیاط اور صفائی جیسے اہم مسائل کو مشترکہ جد وجہد کا موضوع بنایا گیا ہے۔

 

 

 

April 5, 2023


Related Press Releases